بے ہنگم تعمیرات سے انار کی کا خطرہ

شہر قائد کا برسوں سے ماسٹر پلان نہیں بنا،پانچ برس قبل ماسٹرپلان ختم کرکے سندھ ماسٹر پلان اتھارٹی قائم کی گئی تھی

ماسٹر پلان کا ایکٹ تاحال منظور نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک مذکورہ اتھارٹی میں ڈائریکٹر جنرل کو بھی تعینات نہیں کیا جاسکا ہے

 موجودہ سینئر ڈائریکٹر حاجی احمد ایک تو نان ٹیکنیکل ہیں دوسرا وہ ریٹائر ہونے کے باوجود اس اہم ترین ٹیکنیکل عہدے پر تعینات ہیں

 ماسٹر پلان نہیں تیار کروایا جاسکا تو لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے پلان کی تیاری کے ڈی اے کو سونپ دی جس کا یہ کام ہی نہیں تھا 

کراچی( رپورٹ شاہد شیخ) شہر قائد کا برسوں سے ماسٹر پلان نہ ہونے کی وجہ سے بے ہنگم تعمیرات نے انار کی کا خطرہ پیدا کردیا ہے تقریباً پانچ سال قبل ماسٹر پلان ڈیپارٹمنٹ کو ختم کرکے سندھ ماسٹر پلان اتھارٹی 18فروری 2020ءکو قائم کی گئی تھی سپریم کو رٹ آف پاکستان کے آئینی درخواست نمبرC-9-815-K/2016کے تحت 22جنوری 2019کو اس سلسلے میں جا ری کئے جانے والے حکم نامے کی روشنی میں 22جنوری 2020کو سندھ کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ ماسٹر پلان ڈیپارٹمنٹ کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے علیحدہ کرکے سندھ ماسٹر پلان اتھارٹی قائم کی جائے جو کہ لوکل گورنمنٹ اینڈ ہاؤسنگ ٹاؤن پلاننگ ڈیپارٹمنٹ حکومت سندھ کے ماتحت اتھارٹی ہوگی جس کا نوٹیفکیشن 18فروری 2020کو جاری کیا گیا جس کا ابھی تک سندھ اسمبلی سے ایکٹ منظور نہیں کروایا جاسکا جبکہ آج تک ماسٹر پلان کو نہ تو ڈیجیٹلائز کیا جاسکا اور نہ ہی ماسٹر پلان کا کوئی ریکارڈ موجود ہے ماسٹر پلان کا ایکٹ تاحال منظور نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک مذکورہ اتھارٹی میں ڈائریکٹر جنرل کو بھی تعینات نہیں کیا جاسکا ہے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ماسٹر پلان کا ایکٹ حکومت سندھ کے محکمہ قانون میں برسوں سے زیر التواءہے سندھ ماسٹر پلان اتھارٹی کے قیام کے بعد سے اس ہوا میں معلق اتھارٹی کو سینئر ڈائریکٹرز تعینات کرکے جیسے تیسے چلایا جارہا ہے اس پر ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ موجودہ سینئر ڈائریکٹر حاجی احمد ایک تو نان ٹیکنیکل ہیں دوسرا وہ ریٹائر ہونے کے باوجود اس اہم ترین ٹیکنیکل عہدے پر تعینات ہیں بتایا جاتا ہے کہ سندھ ماسٹر پلان اتھارٹی میں نہ تو کوئی لیبارٹری ہے اور نہ ہی GIS (جیو گرافیکل انفارمیشن سسٹم )موجود ہے جبکہ ٹیکنیکل عملہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے کراچی کا پچھلا ماسٹر پلان 2020بھی 2018تک ایک اسٹرٹیجک کا نسپٹ پلان تھا جسے اس کے ختم ہونے سے محظ دوسال قبل سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر منظور کیا گیا تھا اس نام کے ماسٹر پلان کے بعد سے اب تک 2047 کا ماسٹر پلان تکمیل کے مراحل طے کررہا ہے اور کوئی بھی متعلقہ ادارہ اسے تاحال تیار نہیں کرسکا ماسٹر پلان 2020ختم ہونے کے بعد ماسٹر پلان 2047تیار کرنے کیلئے حکومت سندھ کی جانب سے ڈائریکٹریٹ آف اربن ریجنل پالیسی اینڈ اسٹرٹیجک پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کو ذمہ داری سونپی گئی مذکورہ محکمہ دراصل پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ حکومت سندھ کا زیلی محکمہ ہے جبکہ ماسٹر پلان کی تیاری اصل میں منتخب حکومت کاکام ہے

ذرائع کا کہنا ہے کہ تقریباً ایک سال تک مذکورہ محکمے سے جب ماسٹر پلان نہیں تیار کروایا جاسکا تو لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے ماسٹر پلان کی تیاری کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو سونپ دی جس کا سرے سے یہ کام ہی نہیں تھا دراصل ماسٹر پلان کو ماسٹر پلان ڈیپارٹمنٹ یا سندھ ماسٹر پلان اتھارٹی سے تیار کروانے کی ضرورت تھی کیونکہ اس ادارے کا یہی بنیادی کام ہے کے ڈی اے کو ماسٹر پلان کی تیاری کی جب ذمہ داری سونپی گئی تو اس کے اعلیٰ حکام نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول اور ماسٹر پلان تیار کرنے کی ذمہ داری پوری کرنے کی آڑ میں ”سسٹم “کا سہارا لیکر سندھ ماسٹر پلان اتھارٹی کا اہم ترین محکمہ ڈیپارٹمنٹ آف پلاننگ اینڈ اربن ڈیزائن (DP&UD)کو سندھ ماسٹر پلان اتھارٹی سے علیحدہ کرواکر کے ڈی اے میں شامل کرلیا جس کے بعد ماسٹر پلان کی تیاری کی ذمہ داری ڈی پی این یو ڈی کو دے دی گئی اور تب سے ماسٹر پلان کا مسودہ اس ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے جس پر ابھی تک کوئی کام نہیں کیا گیا حتیٰ کہ ڈی پی اینڈ یو ڈی کے چھ ماہ سے تعینات ڈائریکٹر شیخ فرید نے اس سلسلے میں استفسار بتایا کہ وہ قطعی طور پر اس بات سے لاعلم ہیں کہ ڈی پی اینڈ یو ڈی ماسٹر پلان تیار کررہا ہے ان کا کہنا تھا کہ وہ چھ ماہ سے بطور ڈائریکٹر تعینات ہیں آج تک کسی نے ان سے نہ تو ماسٹر پلان کے بارے میں پوچھا اور نہ ہی انہیں اس کا علم ہے ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے محکمے کے ماسٹر پلان کی تیاری کا اکم دیا گیا ہوتا تو ان کو ضرور اس کی خبر ہوتی تاہم انہوں نے اپنے سینئر افسران سے اس متعلق پوچھ کر بتانے کو کہا جس سے ظاہر ہے کہ مذکورہ محکمہ ماسٹر پلان 2047تیار کرنے میں کتنا سنجیدہ ہے شیخ فرید بھی ایک انتہائی ٹیکنیکل محکمے کے ڈائریکٹر ہونے کے باوجود نان ٹیکنیکل آفیسر ہیں اس لئے ان سے ایسی توقع کی جاسکتی ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ 2000اور2001میں بھی کراچی کا ماسٹر پلان تیار کرنے کی اس طرح سے کوشش کی گئی تھی تاکہ ماسٹر پلان کا ایکٹ منظور کروایا جائے اور شہر کے مرکزی ماسٹر پلان کو تیار کیا جاسکے اس وقت بھی ماسٹر پلان آرڈیننس کی تیاری کا کام کے ڈی اے کو سونپا گیا تاکہ ایک مرکزی ماسٹر پلان تیار کرکے شہر کے تمام اسٹیک ہولڈر کو مرکزی ماسٹر پلان کی چھتری کے تلے لایا جاسکے لیکن کے ڈی اے مذکورہ آرڈیننس تیار نہیں کرسکا اور نہ ہی ماسٹر پلان کا ایکٹ منظور کروایا جاسکا جس کی ایک وجہ مشرف دور حکومت میں2002کے دوران ماسٹر پلان گروپ آف آفسز کا بننا بتا یا جاتا ہے کراچی کا پہلا ماسٹر پلان 1952دوسرا 1974سے1985تیسرا 1990سے 2000اور چوتھا 2007سے2020تک بنایا گیا جس میں سے صرف 1974سے1985تک کے ماسٹر پلان کے کچھ حصے پر عملدرآمد کیا گیا باقی کسی ماسٹر پلان پر عملدرآمد نہیں ہوا جبکہ 2020سے کوئی ماسٹر پلان موجود ہی نہیں ہے اس لئے کراچی میں باضابطہ تعمیرات کی توقع کرنا حماقت ہے

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*