اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر اسد عمر کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو نوٹس کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔
وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر اسد عمر کی الیکشن کمیشن کے نوٹسز کے خلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے کی۔
درخواست گزاروں کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے ہوئے۔
عمران خان کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ انتخابی مہم سے متعلق الیکشن کمیشن کا نوٹس خلاف قانون ہے، قانونی سازی کے ذریعے پبلک آفس ہولڈر کو الیکشن مہم میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی تھی، الیکشن کمیشن آرڈینینس کے بعد انتخابی مہم پر پابندی نہیں لگا سکتا۔
درخواست گزار کا یہ مؤقف بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس قانون کی تشریح کا اختیار نہیں ہے، الیکشن کمیشن کا 10مارچ کا آرڈر اور 11 مارچ کے نوٹسز کاالعدم قرار دیے جائیں۔
بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے لیے ضابطہ اخلاق بنایا، سیاسی جماعت کے امیدوار کو اس کوڈ آف کنڈکٹ کی پاسداری کرنا ہوتی ہے، ایکٹ کی خلاف ورزی ہو تو 50 ہزار روپے تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے، یہ جرمانہ صرف ایکٹ اور رولز کی خلاف ورزی پر کیا جا سکتا ہے۔
درخواست گزاروں کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ ارکان پارلیمنٹ کی انتخابی مہم میں شرکت کے لیے 19 فروری کو ایکٹ میں ترمیم کی گئی، اس کے بعد الیکشن کمیشن نے ایک میٹنگ کر کے 10 مارچ کو آرڈر جاری کیا، الیکشن کمیشن نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ کو انتخابی مہم میں شرکت کی اجازت ہو گی لیکن پبلک آفس ہولڈر کو نہیں، الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر نوٹسز جاری کیا۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آئین کا آرٹیکل 218 الیکشن کمیشن کو شفاف الیکشن کرانے کا اختیار دیتا ہے، کیا آرڈیننس سے ترمیم کرکے آئین کے دیے گئے اختیار کو ختم کیا جا سکتا ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ آئین نے ایک مینڈیٹ دیا ہے جسے ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ختم نہیں کیا جا سکتا، کیا کوئی بھی آئینی اختیار قانون بنا کر ختم کیا جا سکتا ہے؟
جسٹس عامر فاروق نے درخواست گزاروں کے وکیل سے کہا کہ آپ نے نوٹس چیلنج کر دیا ہے، الیکشن کمیشن سےکیوں رجوع نہیں کرتے؟ معذرت کے ساتھ آپ لوگوں نے بھی آرڈیننس کی فیکٹری لگائی ہوئی ہے، جو کام پارلیمنٹ کے کرنے والے ہیں وہ کام آرڈیننس سے ہو رہے ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ نوٹس امیدوار یا سیاسی جماعت کو جاری ہو سکتا ہے، افراد کو نہیں، اسد عمر کو جو نوٹس ملا وہ پٹیشن کے ساتھ لگا ہوا ہے، عمران خان کو بھی نوٹس جاری ہوا، وہ شاید فائل میں لگنے سے رہ گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ کو 14 مارچ کو الیکشن کمیشن میں پیش تو ہونا چاہیے تھا، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ان کے پاس یہ نوٹس جاری کرنے کا دائرہ اختیار ہی نہیں تھا۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ نے اپنے طور پر تو اس بات کا تعین نہیں کرنا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، آپ کو پیش ہونا چاہیے تھا، ہو سکتا ہےکہ آپ کی بات درست ہو مگر آپ کو بھی تو اپنی نیک نیتی پیش کرنی ہے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ فیصلے تک الیکشن کمیشن کو کسی مزید کارروائی سے روکا جائے، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی باڈی ہے، آپ کا اپنا کنڈکٹ بھی درست نہیں تھا، آپ الیکشن کمیشن میں کم از کم بذریعہ وکیل ہی پیش ہو جاتے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ حکم امتناع جاری نہیں کریں گے، پہلے الیکشن کمیشن کو نوٹس کرکے سنیں گے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت 28 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیا جبکہ عدالتی معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ الیکشن کمیشن نے نوٹسز معطل کرنے کی متفرق درخواست پر بھی فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
خیال رہے کہ عمران خان اور اسد عمر نے الیکشن کمیشن کے نوٹسز کو چیلنج کر رکھا ہے۔