تحریر غیاث الدین صدیقی
کراچی میں ٹریفک جام ایک بڑا مسئلہ ہوگیا تین کروڑ سے زائد آبادی والے شہر میںپاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ٹریفک کے مسلسل بڑھتے ہوئے مسائل کا اس طرح شکار ہے کہ سڑکوں کی کشادگی، فلائی اوورز کی تعمیر اور ٹریفک قوانین میں تبدیلیاں بھی اس اضافے کو روک نہیں پا رہیں اور اب یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کا صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ شہری انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنا ٹریفک رویہ تبدیل کریں۔شہر میں کونسی سڑک کس وقت بند ہوجائے معلوم نہیں گنتی کے پچاس بندے سڑک پر دھرنا دیتے ہیں اور لاکھوں شہریوں کو پریشان کردیتے ہیں اندازے کے مطابق شہر میں روزانہ 900 سے زائد نجی کاریں اور ایک ہزار 200 موٹر سائیکلیں رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف ٹریفک نے بتایا ہے کہ کراچی کی سڑکوں پر گاڑیوں کی موجودہ تعداد لگ بھگ 60 لاکھ ہے۔گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ایک بڑی وجہ بینکوں کی جانب سے ا?ٹوموبائل کی ا?سان اور لچک دار اقساط کی اسکیمز ہیں۔ لیکن خراب پبلک نقل و حمل کے لیے معقول ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی اور غیرا?رام دہ سفر، نجی گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سب سے اہم وجوہات ہیں۔شہری پبلک ٹرانسپورٹ کے غیر ا?رام دہ سفر پر نجی گاڑیوں میں ٹریفک جام کی تکالیف، ڈرائیونگ کے تناو ¿ اور پارکنگ مقامات کی کمی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ موٹرسائیکل سستی سواری ہے جو نوجوانوں اور چھوٹی فیملیز میں کافی مقبول ہے۔
ایک جانب تجاوزات بڑھ رہے ہیں اور دوسری جانب پارکنگ کا انتظام نہیں ہے جس سے سڑکیں تنگ اور ٹریفک جام رہتا ہے۔کراچی کی بیشتر سڑکیں چاہے وہ شاہراہ فیصل ہو یا ایم اے جناح روڈ، آئی آئی چندریگر روڈ ہو یا پھر شاہراہ لیاقت، ٹریفک پولیس کے نامکمل انتظامات، سگنل سسٹم اور گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ کے باعث مختصر فاصلہ طے کرنے میں بھی طویل وقت لگ جاتا ہے جمعہ 8نومبر کی شام کو شارع فیصل سے گزر ہوا تو عوامی مرکز پر بمپر ٹو بمپر ٹریفک جام تھا عوامی مرکز سے بلوچ پل تک ڈیڈھ گھنٹے کی مسافت طے کنی پڑی اگر میں سپر ہائی وے پر ہوتا تو شاید کراچی سے حیدرآباد پہنچ جاتا ہزراوں شہری بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے جب معلوم کیا تو بتایا گیا قریبی کچی آبادی کے مکین بلوچ پل پر بجلی کے تعطل پر احتجاج کررہے ہیں گاڑی سے اتر کر جب پل پر جاکر دیکھا تووہان شارع فیسل سے برا حال تھا گاڑیوں کے ڈرائیور گاڑی بند کرکے سڑک کے کنارے بیٹھے تھے اور سڑک پر ایک قطار میں لوگ بیٹھے تھے ان میں خواتین ، بچے بھی شامل تھے مظاہرین سے زیادہ پولیس کی نفری بھی موجود تھی لیکن معلوم نہیں کے وہ خود بھی کھڑے ہوکر مظاہرے میں شریک افراد کو تماشائی بن کر دیکھ رہے تھے اس طرح کے مظاہرے اور کراچی میں سڑکوں کی بندش معمول بن گئی تھی شہر کے بعض علاقوں جن میں ملیر ، حسن اسکوا ئر ، لیاقت آباد ، پرانی سبزی منڈی ، لائنز ایریا ،کلا پل ، کورنگی میں تو شاید ہی کوئی دن ایسا ہو تا ہو کہ جب مظاہرہ نہ ہو اس کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے جاتے گزشتہ ماہ معمولی بارش سے شہر کی سڑکیں بہہ گئی تھیں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سڑکیں ریت سے بنائی گئی ہوں آج کل کے ایم سی نے ان سڑکوں کی مرمت کا کا م شروع کردیا ہے مصروف ترین شاہراہوں کو ٹریفک کے رش کے دوران بند کرکے مرمت کا کام کیا جاتا ہے ایسا لگ رہے ہے کہ سڑکوں کی چائنا کٹنگ کی جارہی ہے ایسے کام بھی شہریوں کے لئے باعث رحمت کے بجائے باعث زحمت بن جاتے ہیںشہر کی مرکزی سڑک یونیورسٹی روڈ پربی آرٹی لائن کا منصوبہ جاری ہے یہ منصوبہ جو 2022ئ میں شروع ہوا، تکمیل میں تاخیر کا شکار ہے جبکہ اس کی لاگت میں بھی اضافہ ہو ا ہے۔حالیہ اجلاس میں منصوبے کی حتمی تکمیل کی تاریخ کو 2025ئ تک بڑھا دیا گیا۔ لاگت میں 30 فیصد اضافے کی بھی منظوری دی گئی یعنی اس منصوبے کی لاگت اب 79 ارب روپے کے بجائے 103 ارب روپے تک ہوسکتی ہے ریڈ لائن بی آرٹی زیرِتعمیر ہے جبکہ توقع ہے کہ یلو لائن پر کام کا آغاز بھی جلد ہوگا۔ تاہم جس انداز میں ان منصوبوں پر عمل درا?مد کیا جارہا ہے وہ شہری منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
عام طور پر ایسے منصوبوں کا کام صرف اس صورت میں کیا جاتا ہے جب متبادل راستے/شاہراہیں تیار ہوں اور شہریوں کو مناسب طریقے سے ان کے حوالے سے آگاہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ تعمیراتی کام دفتری اوقات میں نہیں کیا جاتا بلکہ رات کے اوقات میں کیا جاتا ہے تاکہ ٹریفک کی ا?مدورفت متاثر نہ ہو۔ اس سلسلے میں جگہ جگہ حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں تاکہ مسافروں کی جان و مال کو خطرہ نہ ہو۔ ہمارے شہر کے منظر نامے میں صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ٹھیکیدار تعمیراتی کام کرتے وقت کوئی بنیادی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اکثر کھودے ہوئے گڑھوں پر بھی نشانی لگانا بھول جاتے ہیں۔ اس طرح کے گڑھے موٹرسائیکلوں اور پیدل چلنے والوں کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوتے ہیںریڈ لائن بی آرٹی منسوبے کی وجہ سے یونیورسٹی روڈ کا بہت برا حال ہے اس سڑک پر بیس گھنٹے ٹریفک جام رہتا ہے سڑک کو تو چھوٹا کیا گیا لیکن سڑک کے کنارے واقع مافیا کے تجاوزات میں مزید وسعت آئی ہے یہ باثر مافیا ہے اوپر سے لیکر نیچے تک کے تمام افسران کے فرمائشی پروگرام پورے کرتی ہے مافیا نے باقاعدہ لڑائی جھگڑے کے لئے فورس بنا رکھی ہے جس میں غیر مقامی لوگوں کی اکثریت ہے جبکہ شام ہوتے ہی کراچی بندرگاہ جانیوالے مال بردار ٹرک ٹرالر بھی شہر میں داخلے پر پابندی کے باوجود سڑکوں پر ہلہ بول دیتے ہیں کورکگی صنعتی ایریا ، ڈیفنس کیماڑی کی سڑکو ں کے علاوہ سائٹ ، ناظم آباد ، لیاقت آباد سے سہراب گوٹھ تک کی سڑک پر بھی ان گاڑیوں کلاقبضہ ہوتا ہے کراچی کی مرکزی شاہراہوں کے بعد اگر مضافاتی علاقون میں بھی جا? تو وہاں بھی سڑکو ں کا برا حال ہے مرکزی، صوبائی اور کراچی کی سٹی حکومت نے کئی منصوبے شروع کیے ہیں۔ جس میں فلائی اوور برج بنانا، ہیوی ٹریفک کا شہر سے باہر ہی باہر جانے کے لیے لیاری ایکسپریس وے اور پارکنگ عمارات کی تعمیر بھی ہوئی لیکن بغیر منصوبہ بندی سے بننے والے ان منصوبوں کی تکمیل کے بعد بھی سڑکو ں پر ٹریفک وہی حال ہے۔ لوگ بڑی عمارتیں بناتے ہیں لیکن نقشے کے مطابق پارکنگ نہیں بناتے۔ان کے مطابق سرکلر ریلوے شروع ہونے کا کام بھی تعطل کا شکار ہے جس کے بعد لوگوں کو خاصی سہولت مل جائے گی۔ دنیا میں سگنل سسٹم ایسا ہوتا ہے کہ مناسب رفتار سے چلنے والی گاڑی کو تمام سگنل کھلے ملتے ہیں لیکن کراچی میں ایسا نہیں تھاکراچی میں امراض قلب کے قوی ادارے جانیوالے راستے پر بھی ٹریفک جام معمول ہے کئی بار انتہائی ایمرجسنی کی صورت میں ایمبولینس کو راستہ نہیں ملتا ارو ٹریفک والے اس کا نوٹس نہیں لیتے جس کی وجہ سے بعض اوقات مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیںتاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو کراچی کا شہری ٹرانسپورٹ کا نظام سڑکوں کی سہولیات کا مجموعہ تھا جن میں پبلک بسیں اور منی بسوں کے علاوہ ریل سروسز جن میں کراچی سرکلر ریلوے (کے سی ا?ر) اور انٹرا سٹی ٹرام سروس بھی شامل تھیں۔ اس پر یقین کرنا اب شاید مشکل ہو لیکن نصف صدی قبل شہرِ کراچی میں سڑکوں اور ریل کا ایک نیٹ ورک بچھا تھا جو مسافروں اور مال بردار گاڑیوں کو تسلی بخش نقل و حمل فراہم کرتا تھا۔ایسے بہت سے شہری منصوبے ہیں جو نظام کا تفصیلی تجزیہ کرتے ہیں۔ ان منصوبوں میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے حجم کی مناسبت سے مستقبل کے تقاضوں کو سنبھالنے کے لیے مناسب ضابطے تجویز کیے گئے۔ ان تجاویز میں نجی گاڑیوں میں اضافے پر پابندی بھی شامل تھی جبکہ عوامی بسوں کی تعداد میں متناسب اضافہ، سرکلر ریلوے کا مو ¿ثر استعمال (جو ایک چوتھائی صدی سے غیر فعال ہے) اور اس کے ممکنہ توسیعی بحران، پیرا ٹرانزٹ (انفرادی سفر) موڈز پر مرکوز نظام جیسے مختصر مسافت کے لیے اونٹ گاڑیاں، ٹریفک منیجمنٹ کے طریقوں میں بہتری اور کرایوں کو معقول بنانا شامل تھے۔ آئندہ برسوں میں نجی گاڑیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا، سڑکوں کا سائز کم ہوا، پبلک بسوں کی تعداد میں کم تعداد، ہوگئی شہر میں چنگچی رکشوں کی بھر مار ہے جن کی نہ کوئی رجسٹریشن ہے نہ کوئی روٹ پرمٹ انکا پرمٹ قومی کرنسی ہے جبکہ شہر کی سڑکوںکا برا حال کرنے اور سڑکوں پر شہریوں کو کچلنے والے ہیوی ٹرک ٹرالرز ڈمپرز کی کراچی میں رجسٹریشن صفر ہے یہ اس شہر میں کوئی ٹیکس نہیں دیتے لیکن شہر کے انفراسٹکچر کا برا حال کرتے ہیں یاد رہے کہ کراچی کو ایک مو ثر اور مناسب روڈ نیٹ ورک ورثے میں ملا ہے۔
1990ئ میں سڑکوں کی کل لمبائی 7 ہزار 400 کلومیٹر تھی۔ اب یہ اسکی دو گنی ہوچکی ہے جن میں نئی اور موجودہ نیٹ ورک میں متعدد سڑکیں شامل کی گئی ہیں۔ تاہم متعدد وجوہات کی بنا پر ان سڑکوں کو مو ¿ثر انداز میں بروئے کار نہیں لایا جارہا۔کئی بڑی سڑکوں پر تجاوزات کی بھرمار ہے جس نے ٹریفک کی معمول کی ا?مدورفت کو متاثر کیا ہے شہر کے ع؛لاقوں لیاقت آباد میں تین ہٹی پل سے ڈاکخانہ چورنگی تک باقادہ سڑک پر مارکیٹ بن گئی ہے اس طرح کورنگی کراسنگ سے شروع ہونیوالا بازار لانڈھی تک قائد آباد گلستان جوہر ،ناظم آباد اورنگی نارتھ کراچی میں بھی سڑکوں کے کنارے لگنے والے بازاروں کی بھرمار ہے ان رکاوٹوں میں چلتے پھرتے ریڑھی بان اور ہاکرز، اشتہاری ڈھانچے، کھمبے، آٹو ورکشاپس، غیرقانونی پارکنگ، انفرااسٹرکچر سے متعلق منصوبہ بندی کے بغیر بنائی گئیں تنصیبات، پولیس چوکیاں اور اسٹیشنز شامل ہیں۔سڑکوں کے کناروں پر تین درجن سے زائد پولیس چوکیاں اور دفاتر بنائے گئے ہیں جبکہ عمومی طور پر یہ مقامات راہ گیروں کے لیے توسیعی منصوبوں اور سڑکوں کی توسیعی اسکیموں کا حصہ تھے۔شام اور رات کے اوقات میں بہت سی بڑی سڑکیں پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے پارکنگ مقامات کا منظر پیش کرتی ہیں۔ ایس ایم توفیق روڈ، یونیورسٹی روڈ کے کچھ حصے، شاہراہ پاکستان اور نیشنل ہائی وے اس کی چند نمایاں مثالیں ہیں۔شہر سے شہر ا?مدورفت کرنے والی بسوں نے بھی بہت سی مصروف شاہراہوں اور ملحقہ مقامات کو غیرقانونی طور پر اپنے ٹرمینلز میں تبدیل کردیا ہے۔ صدر، کنٹونمنٹ اسٹیشن، لی مارکیٹ اور پاک کالونی کے اطراف کی سڑکیں اور گلیاں ایسے مقامات ہیں جہاں سے انٹرسٹی بسوں کا آپریشن بلا روک ٹوک جاری ہے۔ لیاقت آباد-کریم آباد فلائی اوور سے متصل ایک بس اڈہ موجود ہے۔ شہر میں ٹریفک جام جیسے سنگین مسائل کے حل کے لئے حکومت کو سنجیدگی دکھانی پڑے گی اور اس مسئلے کے حال کے لئے موئثر اقدام کرنا پڑے گا