پپو کی بات
تحریر:غیاث الدین سدیقی
گزشتہ روز اخبارات میںایک خبر پڑھ کر دل کو سکون ملا کہ لک بھر میں مہنگائی ساڑھے تین سال کی کم ترین سطح پراور ستمبر میں مہنگائی 44 ماہ کی کم ترین سطح 6.9 فیصد پرآگئی ہے صبح مارکیٹ گیا تو معلوم ہوا کہ پیاز ، ٹماٹر ،ادرک لہسن ، کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے دودھی کی قیمت بھی 220روپے فی لیٹر انڈے 340روپے درجن چنے کی دال 450روپے فی کلو اور اور تو اور چڑیوں کا باجرا120روپے فیل کلو فرو خت ہورہا بازار میں مہنگائی کا طوفان تھا کسی چیز کی قیمت کم نہیں ہوئی تھی سبزی والے سے قیمت بڑھنے کی وجہ معلوم کی تو اس نے بتایا کہ امریکی ڈالر کہاں پہنچ گیا اس سے پوچھا کہ پیاز اور آلو مہنگا ہونے کا امریکی ڈالر سے کیا تعلق ہے تو اس نے بتایا کہ ہمیں تو مارکیت سے یہی معلوم ہوا ہے دوسری طرف ایک اور دل دہلانے ولی خبر آگئی کہ کراچی کے لئے بجلی کی فی یونت قیمت میں تقریبا ساڑھے تین روپے کا اضافہ کردیا گیا اس وقت غریبوں ،متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے بجلی کے بل ایک ڈراﺅنا خواب بن گئے ہیں مہنگائی کی وجہ سے یومیہ تین سے چار افراد خودکشیاں کررہے ہیں ایسے میں جو افراد کرائے پر رہتے ہیں ان کے لئے تو دو قوت کی روٹی بہت مشکل ہوگئی ہے دال کے بعد گھر میں چٹنی بنانا بھی مشکل ہے مہنگائی کی وجہ سے شرح خواندگی میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے بچوں کو تعلیم کاشوق ہے لیکن والدین کے لئے ان کا شوق پورا کرنا مشکل ہوگیاہے حکومت نے بھی اس سلسلے میں کوئی ایسے اقدامات نہیں کیئے اور نہ سرکاری اسکول اور کا لجز کی حالت بہتر کی وہنگائی کی کمی کی خبریں مزاق لگ رہی تھیں وزارت خزانہ نے ماہانہ معاشی آ ﺅٹ لیک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق ترسیلات زر، برآمدات، درآمدات بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے،
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 92.1 فیصد کی کمی ہوئی، جولائی تا ستمبر ایف بی آر محصولات میں 25.5 فیصد اور نان ٹیکس آمدنی میں تین ماہ میں 20.8 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق تین ماہ میں مالی خسارے میں 4.3 فیصد کا اضافہ ہوا، مہنگائی کی شرح 29 فیصد سے کم ہوکر 9.2 فیصد پر آگئی، بڑی صنعتوں کی پیداوار میں دو ماہ میں 0.19 فیصد کی کمی ہوئی۔ وزارت خزانہ کے مطابق ملکی معیشت نے پہلی سہہ ماہی میں مستحکم بحالی کا مظاہرہ کیا، آئی ایم ایف سے 1.03 ارب ڈالر کی قسط ملنے سے معیشت کو تقویت ملی۔ ایس سی او کانفرنس سے کاروبار و مارکیٹ کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔رپورٹ کے مطابق آئندہ مہینوں میں معیشت پائیدار بحالی کے سفر پر گامزن رہے گی، ترسیلات زر میں 38.8 فیصد اضافہ ہوا اور حجم 8.78 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، پاکستانی برآمدات 7.8 فیصد اضافے سے 7.49ا رب ڈالرتک پہنچ گئیں۔ زیرجائزہ عرصے کے دوران مجموعی غیرملکی سرمایہ کاری میں 70.4 فیصد اضافہ ہوا سرمایہ کاری90 کروڑ ڈالر سے بڑھ گئی، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 48 فیصد اضافے سے 77 کروڑ ڈالر رہے۔اس عرصے کے دوران اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر 7.61 ارب سے بڑھ کر 11 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے۔ اسٹاک مارکیٹ میں 78.4 فیصد تیزی ا?ئی اور اسٹاک مارکیٹ90 ہزار پوائنٹس سے تجاوز کرگئی، ایک سال میں ڈالر ریٹ 280.29 سے کم ہو کر 277.62 روپے پر آگیا۔جولائی تا ستمبر ٹیکس ریونیو میں 25.5 فیصد اضافہ ہوا اور 2563 ارب روپے جمع ہوئے۔ نان ٹیکس ریونیو 20.8 فیصد اضافے سے 341 ارب روپے رہا، وزارت خزانہ کے مطابق ابتدائی 2ماہ میں مالی خسارہ 4.3 فیصد بڑھا اور خسارے کا حجم 841 ارب روپے سے زیادہ رہا، کرنٹ اکاو?نٹ خسارے میں 92 فیصد کمی ہوئی اور یہ 9 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی سطح پر ا?گیا۔پاکستان میں گذشتہ ڈیڑھ برس سے بڑھتی مہنگائی نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور ایسے میں کسی گھر میں صرف ایک کمانے والا ہو تو کیا اس کی محدود آمدن سے گھر چلانا ممکن ہے؟پاکستان کے ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ ہفتہ وار مہنگائی کی شرح کا تناسب دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ شاید ملک کی بیشتر آبادی کے لیے ایسا ممکن نہیں رہا۔ایسے میں پاکستان میں کچھ لوگ ا?مدنی بڑھانے کے مختلف طریقے تلاش کر رہے ہیں۔
لیکن کیا ہر کسی کے لیے ایسا کرنا ممکن بھی ہے؟ کیا اس کوشش میں ان کو ان دیکھی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے؟وزیر خزانہ نے مالی سال کے درمیان میں بجٹ اور کسی بھی قسم کی ایڈجسٹمنٹ کے امکان کو مسترد کردیا۔وزارت خزانہ نے واضح کیا ہے کہ ملک کی معاشی صورت حال مالیاتی پالیسیوں کے موثر ہونے کی عکاس ہے اور اس سے مالیاتی استحکام کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ ترجمان وزارت خزانہ کے مطابق اب تک سامنے آنے والے معیشت کے اعشاریے بالخصوص افراط زر، لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی نمو اور درآمدات کے حجم میں سامنے آنے والے رحجانات حکومت کے اندازوں اور توقعات کے عین مطابق ہیں اور مالی سال کے وسط میں بجٹ میں کسی قسم کی ایڈجسٹمنٹ کے جواز کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف نے بھی معاشی اعشاریوں کے حوالے سے حالیہ دنوں میں اپنی پشین گوئیوں پر نظر ثانی کی ہے جس کے بعد آئی ایم ایف کے اندازے اور تخمینے وزارت خزانہ کے معاشی تخمینوں سے قریب تر ہو گئے ہیں، جاری مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کنزیومر پرائس انڈیکس پر مبنی افراط زر 10.2 فیصد کے حکومتی تخمینے کے برعکس بہتر معاشی پالیسیوں کی وجہ سے 9.2 فیصد رہا اور صرف 1 فیصد فرق دیکھنے میں آیا جسے عالمی نظیروں اور غیر یقینی عالمی معاشی ماحول کے تناظر میں معمولی کہا جا سکتا ہے۔وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف نے بھی مالی سال 25-2024کے لیے سی پی آئی افراط زر کا تخمینہ 12.7 فیصد لگایا تھا جس پر نظر ثانی کرنے کے بعد اس تخمینے کو 9.5 تک نیچے لایا گیا ہے اور مجموعی طور پر اس میں 3.2 فیصد کمی لائی گئی ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق حقیقی اور تخمینوں پر مبنی معاشی اندازوں میں کسی قسم کا فرق پالیسی سازی اور بجٹ کی منصوبہ بندی کے حوالے سے زیر استعمال لائے گئے، تخمینوں کے ماڈلز کا کلیدی جزو ہوتا ہے۔وزارت خزانہ کے مطابق لارج سکیل مینو فیکچرنگ میں 0.9 فیصد سہ ماہی نمو کے تخمینے کا ہدف پورا ہونے کی بھرپور توقع ہے کیونکہ جولائی میں اس شعبے میں شرح نمو توقعات سے بڑھ کر 2.52 فیصد رہی اگرچہ اگست کے مہینے میں اس میں عارضی کمی دیکھنے میں آئی وزارت خزانہ کے مطابق ٹیکسٹائل سیکٹر جس کا مینوفیکچرنگ سیکٹر میں شیئر سب سے زیادہ 18.2 فیصد ہوتا ہے، بھی پچھلے 24 مہینے مسلسل سکڑاو¿ کا شکار رہنے کے بعد مثبت راہ پر چل پڑا ہے۔
علاوہ ازیں آٹو موبائل سیکٹر میں بھی پہلی سہ ماہی میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق ایل ایس ایم سیکٹر کی کارکردگی معاشی اہداف سے ہم آہنگ ہے اور سیکٹر کی ابھرنے کی صلاحیت و استحکام اور محصولات کے ہدف کے پائیدار حصول میں اس کا کردار نمایاں ہے۔وزارت خزانہ کے مطابق پہلی سہہ ماہی میں ایل ایس ایم کی شرح نمو کے حوالے سے ابھی تک دو ماہ (جولائی اور اگست) کے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں اور پوری سہ ماہی کے اعداد و شمار سامنے آنے کے بعد اس سیکٹر کی معاشی نمو کے حقیقی اعداد و شمار حاصل ہوں گے۔اس حوالے سے قبل از وقت تک بندی یا اندازوں کے ذریعے اس اہم سیکٹر کی معاشی نمو کی اٹھان کی درست عکاسی کرنا عبث ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق درآمدات کے شعبہ میں پہلی سہ ماہی کے حقیقی اعداد و شمار کے مطابق درآمدات کا حجم 14.219 ارب ڈالر رہا ہے جبکہ پہلی سہ ماہی کا تخمینہ یا اندازہ 14.062 ارب ڈالر کا تھا۔ ان اعداد و شمار سے درآمدات کے شعبے میں محصولات کی مد میں وصولیوں پر پڑنے والے مثبت اثرات کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف نے جاری مالی سال میں پاکستان کے درآمدات کے تخمینے پر نظر ثانی کرتے ہوئے اپنے 60.5 ارب ڈالرز سالانہ درآمدات کے تخمینے کو 3.3 ارب ڈالر کم کر کے 57.2 ارب ڈالر کر دیا ہے جس کے بعد آئی ایم ایف کا تخمینہ، حکومتی تخمینہ کے قریب تر ہو گیا ہے جو کہ 57.3 ارب ڈالر ہے،وزارت خزانہ کے مطابق مالی سال 2025 کی جولائی-ستمبر سہ ماہی میں ملکی درآمدات میں 15.7 فیصد اضافہ ہوا ہے جو مینوفیکچرنگ اور معیشت کے پیدواری شعبے کی بحالی کے لیے ضروری تھا۔ وزارت خزانہ کے مطابق افراط زر میں کمی کے مثبت اثرات، گرتی ہوئی شرح سود اور اس کے نتیجے میں قرض کےحصول کی لاگت میں ہونے والی کمی معیشت کے لیے نیک شگون ہے، معیشت کے اعشاریوں کو سمجھنے اور ان کی درست عکاسی کرنے میں ماہانہ اور موسمیاتی رحجانات کے کلیدی کردار کی بہت اہمیت ہے۔ عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں اتار چڑھاو¿ کے باعث ماہانہ بنیادوں پر معاشی اشاریوں میں سامنے آنے والا اتار چڑھاو¿ ایک عمومی اور متوقع امر ہے اور ملک کی معاشی نشوونما اور معاشی ترقی کے تخمینوں میں پنہاں ان عوامل کا درست ادراک انتہائی ضروری ہے۔