ہنر مند افراد ملک چھوڑنے پر کیوں مجبور ہیں؟

پاکستان کے معاشی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہنرمند افراد کی بڑی تعداد آج ملک چھوڑنے پر مجبور ہے جبکہ بہت سے نوجوان جا بھی چکے ہیں، بلومبرگ کی رپورٹ نے تہلکہ مچا دیا۔

پاکستان کے معاشی اور معاشرتی حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ اب تک لاکھوں نوجوان اور اپنے شعبوں کے ماہرین ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بدترین مہنگائی کی وجہ سے ہنرمند افراد کی بڑی تعداد ملک چھوڑنے پر مجبور ہورہی ہے، ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اچھی نوکریوں سے وابستہ ہیں مگر مہنگائی کی وجہ سے ان کی ضروریات پوری نہیں ہو پا رہیں۔

ان ہنر مند افراد میں بینک ملازمین، ڈاکٹرز انجینئرز، اکاؤنٹنٹ، مختلف کمپنیوں کے منیجرز، آئی ٹی ماہرین اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ہنرمند افراد شامل ہیں۔

پاکستان اقتصادی سروے کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق 2022میں 20ہزار جبکہ 2023میں 45ہزار نوکری پیشہ افراد ملک چھوڑ کر بیرون ملک جا چکے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نوکری پیشہ افراد زیادہ تر حکومتی ٹیکسز کی وجہ سے بھی اپنی نوکریاں چھوڑ کر بیرون ملک روانہ ہو جاتے ہیں۔

وائس آف امریکا کے مطابق گزشتہ دوسال کے دوران پاکستان سے بیرون ملک ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ دیکھا گیا۔

اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے ڈیٹا کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ 2023 میں اگر سب سے زیادہ ہجرت جس ملک سے ہوئی ہے تو وہ پاکستان ہے۔ اس کے بعد سوڈان، انڈیا، چین، بنگلا دیش اور نیپال کا نمبر آتا ہے۔

ماریہ میمن کے مطابق معاشی بدحالی، سیاسی عدم استحکام کے شکار پاکستان سے تعلیم یافتہ پیشہ وروں اور ہنرمند افراد کا اتنی بڑی تعداد میں ملک چھوڑ کر چلے جانا ملکی ترقی کیلیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جب لوگ بیرون ملک جاتے ہیں تو ملک میں ترسیلات زر آتی ہیں جو حکمرانوں کو لازمی بات ہے اچھی لگتی ہیں لیکن جب ملک بنانے والے رہیں گے ہی نہیں تو اس ملک اداروں اور نطام کو چلانے کیلیے کون کام کرے گا؟

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت میں بیرونی زرِمبادلہ کمانے کے لیے برآمدات کے بعد سب سے زیادہ ان ترسیلات زر ہی کا ہاتھ ہوتا ہے جو بیرون ملک مقیم پاکستانی بھیجتے ہیں بلکہ گزشتہ چند برسوں میں برآمدات اور ترسیلات زر تقریباً برابر ہو چکی ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ایک کروڑ 35 لاکھ سے زائد پاکستانی دنیا کے 50 سے زائد ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*