طالبہ نے من گھڑت خبریں پھیلانے والوں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کردیا

لاہور کے نجی کالج میں سیکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں مبینہ ریپ کے واقعے سے منسوب طالبہ نے تحریری بیان میں واقعے کی تردید کرتے ہوئے من گھڑت خبریں پھیلانے والوں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کردیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق تحریری بیان میں طالبہ نے بتایا کہ وہ 2 اکتوبر کو پاؤں میں چوٹ لگنے سے منہ کے بل گری تھی جس کے بعد دوائیوں سے افاقہ نہ ہونے اور سانس کی شدید تکلیف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اسے نجی ہسپتال کے آئی سی یو میں منتقل کیا گیا تھا۔
تحریری بیان کے مطابق 11 اکتوبر کو ڈاکٹرز نے اسے ڈسچارج کرتے ہوئے 15 روزہ آرام کا مشورہ دیا تھا۔
تحریری بیان میں طالبہ نے درخواست کی کہ من گھڑت خبریں پھیلانے والوں کو سخت سزا دی جائے، طالبہ کے والد نے بھی تحریری بیان میں زیادتی کے واقعے کی تردید کی ہے۔
طالبہ کے والد کا بیان:
قبل ازیں اے ایس پی ڈیفنس شہربانو نقوی نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا تھا جس میں ان کے اطراف میں 2 لوگ موجود تھے جن کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ متاثرہ بچی کے رشتہ دار ہیں۔
اے ایس پی شہربانو کے ساتھ موجود دونوں افراد نے ویڈیو بیان میں اس قسم کے کسی بھی واقعے کی تردید کی تھی۔
ویڈیو بیان میں شہربانو نے دونوں افراد کو متعارف کرواتے ہوئے کہا کہ میرے ساتھ متاثرہ بچی کے والد اور چچا کھڑے ہیں۔
اے ایس پی شہربانو کے ساتھ کھڑے ایک شخص نے کہا کہ لاہور کالج میں جو واقعہ ہوا ہے، اس کی سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں اس میں ہماری بچی کا نام لیا جارہا ہے لیکن اس میں ایسا کچھ نہیں ہے، ہماری بچی گھر کی سیڑھیوں سے گری جس سے ان کی کمر میں چوٹ آئی اور انہیں آئی سی یو لے جایا گیا۔
سی سی ٹی وی کے ریکارڈ میں کچھ نہیں ملا، کالج انتظامیہ
دریں اثنا نجی کالج کے ڈائریکٹر آغا طاہر اعجاز نے مبینہ ریپ کیس کے حوالے سے جاری وڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ’ہم نے سی سی ٹی وی کے ریکارڈ کی جانچ کی ہے لیکن ہمیں کچھ نہیں ملا، ہم بذات خود کئی پولیس اسٹیشنز میں گئے لیکن وہاں کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا’۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’پولیس ہمارا سی سی ٹی وی کا تمام ریکارڈ لے گئی ہے، کالج انتظامیہ نے بیماری یا دیگر وجوہات کے باعث کالج سے غیر حاضر کئی طالبعلموں کو فون کالز بھی کیں’۔
کسی کے پاس ثبوت ہے تو سامنے لے کرآئیں، اے ایس پی شہربانو
بعدازاں آج نجی ٹی وی چینل ‘جیو نیوز’ کے پروگرام ‘جیو پاکستان’ میں گفتگو کرتے ہوئے اے ایس پی شہر بانو نے کہا کہ ہمیں مبینہ واقعے سے متعلق کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں ملی، اگر کسی کے پاس طالبہ سے زیادتی کا کوئی ثبوت ہے تو سامنے لے کر آئیں۔
انہوں نے کہا کہ جس لڑکی کا نام لیا جارہا ہے وہ گھر میں گری اور اس کے ساتھ زیادتی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا اس کے علاوہ اگر کسی کے ساتھ واقعہ ہوا تو پولیس کو بتائیں۔
اے ایس پی شہربانو کا مزید کہنا تھا کہ اگر پولیس گارڈ کو نہ پکڑتی تو تب بھی پولیس کو غلط کہا جاتا۔
معاملہ کیا ہے؟
واضح رہے کہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گزشتہ 3 روز سے یہ خبریں گرم تھیں کہ لاہور کے ایک نجی کالج کے سیکیورٹی گارڈ نے بریک کے دوران کالج کے بیسمنٹ میں فرسٹ ائیر کی طالبہ کو ریپ کا نشانہ بنا ڈالا۔
سوشل میڈیا رپورٹس کے مطابق سیکیورٹی گارڈ نے لڑکی کا ریپ کرنے کے بعد اسے بیسمنٹ میں ہی لاک کردیا تھا، بعدازاں کالج کے ایک استاد نے لڑکی کی چیخوں کی آواز سُن کر اسے وہاں سے باہر نکالا، تاہم سیکیورٹی گارڈ جائے وقوع سے فرار ہوگیا۔
رپورٹس کے مطابق مذکورہ سیکیورٹی گارڈ کا کالج کے خواتین عملے کے ساتھ نامناسب رویے کے حوالے سے پہلے ہی ریکارڈ خراب تھا لیکن کالج انتظامیہ نے اس کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
سوشل میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ حیران کن طور پر کالج انتظامیہ اس واقعے پر خاموش رہنے کے لیے طلبہ پر دباؤ ڈال رہی ہے اور متاثرہ لڑکی کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے ادارے کی ساکھ برقرار رکھنے کو ترجیح دے رہی ہے، جس سے طلبہ اور عملے میں شدید غم و غصہ پھیل گیا ہے۔

علاوہ ازیں سوشل میڈیا رپورٹس میں مزید دعویٰ کیا گیا تھا کہ متاثرہ طالبہ آئی سی یو میں ہے اور اس کی حالت تشویشناک ہے، خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ انتظامیہ اسکینڈل سے بچنے کے لیے اس واقعے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔
سوشل میڈیا پر یہ افواہیں گرم ہونے کے بعد کالج کے طلبہ و طالبات نے کلاسز کا بائیکاٹ کرکے شہر بھر میں احتجاج شروع کردیا تھا، اس دوران پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کئی طلبہ زخمی بھی ہوئے اور گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بھی طالبہ سے مبینہ زیادتی کیس کی تحقیقات کے لیے 6 رکنی کمیٹی قائم کردی ہے جو 48 گھنٹوں میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔