روس یوکرین تنازع۔ عالمی معیشت پر اثرات

س وقت دنیا کی نظریں یوکرین پر روس کے جارحانہ حملے پر مرکوز ہیں۔ یوکرین کی یورپی یونین اور نیٹو کی رکنیت حاصل کرنے کی خواہش روسی حملے کی بنیاد بنی لیکن یوکرین نہ تو نیٹو اور نہ ہی یورپی یونین کا ممبر بن سکا۔ موجودہ صورتحال میں دنیا دو گروپس میں تقسیم ہوچکی ہے۔ پہلے گروپ میں چین، روس اور پاکستان اور ان کے اتحادی جبکہ دوسرے گروپ میں امریکہ، اسرائیل، بھارت اور ان کے اتحادی شامل ہیں۔

امریکہ، چائنا سی کے گرد ممالک جاپان، فلپائن، تائیوان، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا، ویت نام، ملائیشیا، انڈونیشیا، برونائی اور آسٹریلیا کو چین کے خلاف اُکسانے میں کسی حد تک کامیاب ہوگیا ہے جبکہ یورپی ممالک روس سے جنگ نہیں چاہتے کیونکہ روس، یورپ کو گیس سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔موجودہ صورتحال میں چین نے ایران کو بھارتی اثر و رسوخ سے نکال لیا ہے۔ اس سلسلے میں عرب ممالک کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔ چین نے سعودی عرب اور دیگر ممالک کو تیل کی تجارت ڈالر میں کرنے کے بجائے اپنی اپنی کرنسیوں میں کرنے کی پیشکش کی ہے جو امریکی ڈالر کیلئے بڑا دھچکا ہوگا۔

سعودی عرب اگر چین کے بلاک میں آنے کے بجائے امریکہ کا حامی رہتا ہے تو چین، سعودی عرب کے بجائے ایران اور روس سے تیل خرید سکتا ہے۔ چین، سعودی عرب سے سالانہ 40 ارب ڈالر کا تیل خریدتا ہے جبکہ ایران، چین کو یہ تیل آدھی قیمت پر دینے کو تیار ہے۔ آئی ایم ایف کے سربراہ نے روس، یوکرین تنازع سے عالمی معیشت پر منفی اثرات کی پیش گوئی کی ہے۔ تیل کی قیمت بڑھ کر 120ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی ہیں۔ روس کی اسٹاک مارکیٹ 40 فیصد گرگئی ہے جبکہ پاکستان سمیت عالمی اسٹاک مارکیٹس بھی کریش ہوئی ہیں۔ سونے اور ڈالر کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ انٹرنیشنل بانڈز کی قیمتیں 10فیصد سے زائد گرگئی ہیں اور 100ڈالر کا پاکستانی بانڈ 75ڈالر پر آگیا ہے۔

پاکستان کا فیول امپورٹ بل پہلے ہی تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ چکا ہے ، ملک مزید اضافے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ امریکہ اور یورپ نے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی ہیں۔ روس سے یورپ امریکہ کیلئے تمام فلائٹس بند کردی گئی ہیں، روسی کرنسی روبل کی قدر 10فیصد کم ہوئی ہے۔ یورپی اور امریکی بینکوں میں روس کے تمام اثاثے اور فنڈز منجمد کردیئے گئے ہیں۔ روس اور یوکرین دنیا کی 40فیصد گندم پیدا کرتے ہیں ، یوکرین دنیا میں گندم ایکسپورٹ کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ گندم اور گیس کی سپلائی متاثر ہونے سے فوڈ سیکورٹی اور دیگر معاشی مسائل جنم لیں گے۔ پاکستان کے تقریباً 4000طلباء میڈیکل اور دوسرے شعبوں میں تعلیم حاصل کررہے تھے جن میں سے زیادہ تر کو ہنگامی بنیادوں پر وطن واپس لایا گیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ امریکہ اپنے دشمنوں سے زیادہ دوستوں کو ڈستا ہے جبکہ چین اپنے دوستوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ اسرائیل کی کوشش ہوگی کہ وہ خود جنگ میں نہ کودے بلکہ امریکہ، بھارت اور اتحادیوں کے ذریعے چین کو شکست دے جو پہلی جنگِ عظیم میں امریکہ کی پالیسی تھی جب روس، برطانیہ، فرانس بمقابلہ جرمنی، آسٹریا، ہنگری اور سلطنتِ عثمانیہ تھے۔ امریکہ پہلے 3سال دونوں فریقوں کو اسلحہ فروخت کرکے پیسے کماتا رہا اور آخری سال جب روس، انقلاب کے بعد جنگ سے باہر ہوا اور دونوں فریقین طویل لڑائی کے نتیجے میں کمزور ہوگئے تو امریکہ نے جنگ کرکے کامیابی حاصل کی۔

اسرائیل کی بھی اب وہی پالیسی ہوگی۔ یوکرین مشرقی یورپ کا ملک ہے جہاں 85فیصد مسیحی، 2فیصد مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگ رہتے ہیں، روس سے آزادی حاصل کرنے والی ریاستوں میں قازقستان کے بعد یوکرین رقبے کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے جس کا رقبہ 603548اسکوائر کلومیٹر ہے۔ یوکرین کی سرحدیں مغرب میں پولینڈ، سلوواکیہ اور ہنگری، جنوب میں رومانیہ اور مالدووا سے ملتی ہیں۔ یوکرین 41.2ملین کی آبادی کے ساتھ یورپ کا آٹھواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کی فی کس آمدنی 3100ڈالر ہے۔ یوکرین 1920ء سے 1991ء تک روس کا حصہ رہا ہے تاہم 24اگست 1991کو یوکرین نے روس سے مکمل آزادی کا اعلان کردیا۔ یوکرین کی روس کے مقابلے میں دفاعی قوت نہ ہونے کے برابر ہے۔ امریکہ اور یورپ عملی طور پر یوکرین کی مدد کیلئے نہیں آرہے ، اس صورتحال میں روس، یوکرین پر قبضہ کرکے اپنی مرضی کی حکومت مسلط کرسکتا ہے۔

پاکستان کو امریکہ اور یورپ کے ساتھ خطے میں چین اور روس کے ساتھ پاک چین اقتصادی راہداری ، گیس پائپ لائن اور اسٹیل مل کے منصوبوں کے ذریعے اپنے روابط بڑھانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم پاکستان کی روسی حملے کے دوران روسی صدر پیوٹن سے ماسکو میں ہونے والی 3گھنٹے کی طویل ملاقات میں دیگر اہم امور کے علاوہ توانائی، تجارت، افغانستان کی علاقائی صورتحال اور اسلاموفوبیا پر تبادلہ خیال کیا گیا لیکن پاک روس بڑھتے تعلقات کے باعث برطانیہ نے روس سے ناراضی کی وجہ سے مشیر قومی سلامتی معید یوسف کا دورہ برطانیہ منسوخ کردیا۔

یورپی یونین نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کرے جبکہ FATF نے 27 میں سے 26 شرائط پوری کرنے کے باوجود پاکستان کو دہشت گردفنانسنگ روکنے میں ناکامی پر گرے لسٹ میں برقرار رکھا ہے اور اگر یہی حالات برقرار رہے تو مستقبل قریب میں GSP پلس، IMF اور FATF کی تلواریں پاکستان پر بدستور لٹکتی رہیں گی۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ امریکہ، یورپ سے اپنے تعلقات خراب کئے بغیر روس یوکرین تنازع میں غیر جانبدار رہے جو ہماری کامیاب خارجہ پالیسی کا مظہر ہوگا کیونکہ موجودہ نازک معاشی صورتحال میں پاکستان، امریکہ اور یورپ کی ناراضی اور مخالفت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*