
اسرائیل پر حماس کے حملے کے ایک دن بعد آٹھ اکتوبر سے جنوبی لبنان، اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے درمیان جھڑپوں کا مرکز بن گیا ہے۔ ان جھڑپوں میں حزب اللہ کے جنگجو، رہنما اور لبنان میں مقیم حماس کے رہنما نشانہ بنے۔
معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ نے 14 فروری کو ایک خطاب میں اپنے حامیوں، خاص طور پر جنگجوؤں اور ان کے اہلخانہ سے جنوبی لبنان کے علاقوں اور سرحدی دیہات میں موبائل فون کا استعمال ترک کرنے کی تاکید کی۔
حزب اللہ نے غزہ جنگ اور اپنی کارروائیوں کے آغاز کے بعد سے عام رہائشیوں کو ایک سے زیادہ بار متنبہ کیا ہے کہ اسرائیل نگرانی کے لیے لگائے گئے کیمروں اور موبائل فون تک رسائی حاصل کر رہا ہے۔
ان آلات کی ممکنہ اسرائیلی دراندازی کے بارے میں بات گزشتہ مہینوں میں تیز ہوئی ہے۔ خاص طور پر حماس کے ممتاز رہنما صالح العروری کے قتل کے بعد سے۔
بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقے میں ایک اپارٹمنٹ پر حملہ کر کے انھیں نشانہ بنایا گیا اور اس کا الزام اسرائیل پر لگایا جاتا ہے لیکن اس نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
اس میدان میں اسرائیل کی اعلیٰ صلاحیتوں کے بارے میں بحث کوئی نئی بات نہیں لیکن لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال آتا ہے کہ وہ کیسے گاڑیوں یا عمارت میں موجود اپنے ہدف کی نشاندہی کر لیتا ہے؟
فریقین کے درمیان معلومات جمع کرنے کی یہ جنگ کئی دہائیوں پر محیط ہے لیکن یہ ہوتا کیسے ہے؟ سمارٹ فون کو ہیک کرنے کا کیا مطلب ہے اور اس کا استعمال عسکری آپریشنز اور قتل کرنے میں کیسے ہوتا ہے؟