
کراچی (اسٹاف رپورٹر)
نگراں وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر کی جانب سے ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی ایس ایس سی پارٹ ٹو 2023 کے سالانہ امتحان کے نتائج میں رد و بدل کے معاملے میں قائم تحقیقاتی کمیٹی نے پورے امتحانی عملے کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ۔ذمہ داران کو منظر عام پر لانے کے لیے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ سے تحقیقات کی سفارش کی گئی تھی ۔ نگراں وزیراعلیٰ سندھ کوایس ایس سی پارٹ ٹو کے امتحان23-22کے نتائج میں رد و بدل کی شکایات موصول ہونے کے بعدبی ایس سی کراچی کی جانب سے سیکریٹری اسکول ایجوکیشن ڈاکٹر شیریں مصطفیٰ (چیئرپرسن)، ایڈیشنل سیکریٹری یو اینڈ بی مس افشاں رباب، یو اینڈ بی ڈیپارٹمنٹ کے سیکشن آفیسر زبیرکٹپر پر مشتمل تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ انکوائری کمیٹی نے 21 فروری کو اپنی رپورٹ اور تجویزنگراں وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر کو پیش کی ، وزیراعلیٰ سندھ نے کمیٹی کی سفارشات کو منظور کرتے ہوئے ، اس پر عمل درآمد کرانے کے لیے بورڈ کے چیئرمین کو بھجوا دیا۔کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق امتحانی ٹیم بشمول کنٹرولر، ڈپٹی کنٹرولر، اسسٹنٹ کنٹرولر اور آئی ٹی عملہ اس جرم میں برابر کے شریک ہیں ۔کمیٹی نے امتحانات میں رد وبدل کے حوالے سے تحقیقات کے لیے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ سے خدمات لینے کی سفارش کی تھی۔
انکوائری کمیٹی کی رپورٹ درج ذیل ہیں۔
رپورٹ: کمیٹی نے اپنی کارروائی رپورٹ میں کہا کہ متعلقہ عملے سے جب بیان لیا گیا تو کسی نے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جو ان کے تحریری بیانات سے واضح ہے۔
نتائج کا اعلان کرنے سے پہلے جو حتمی نتائج بنائے گئے تھے اُن کے حوالے سے کوئی واضح شواہد موجود نہیں اور نہ ہی اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ نتائج کا اعلان کرنے سے پہلے انہیں کتنی بار تبدیل کیاگیا۔
جناب عمران( اس وقت کے قائم مقام کنٹرولر امتحانات) نے ایک تحریری بیان جاری کیا جس سے واضح جانبداری نظر آتی ہے ۔کمیٹی نے اصل نتائج تک رسائی کے حوالے سے سی ڈی /یو ایس بی کی درخواست کی لیکن ادارے کی جانب سے اس پر کوئی عمل نہیں کیاگیا۔
خالد احسان، ڈپٹی کنٹرولر کو چیئرمین کی جانب سے انٹرنل انکوائری کمیٹی میں بطور ممبر شامل کیا گیا جو کہ برائے راست امتحانی نتائج میں ردوبدل می ملوث تھا۔
آئی ٹی ونگ/کمپیوٹر ونگ کو بورڈ انتظامیہ کی جانب سے یکسر نظر انداز کیا گیا جو کہ تمام مضامین کی سرگرمیوں کے حوالے سے کلیدی کرادار ادا کرتا ہے ۔ اس طرح بڑے پیمانے پر نتائج میں ردوبدل کیاگیا۔
ایم ایس بیسکیمپ آئی ٹی سولوشن( M/s Basecamp IT Solution) کی طرف سے 2023 میں نتائج کے حوالے سے ایک نیا سافٹ ویئر متعارف کرایا گیا ۔ گذشتہ سال طلباء کے داخلے پچھلے سافٹ ویئر کے تحت ہوئے تھے لیکن نئے سافٹ ویئر نے اس سال شائع ہونے والے مضامین کے صرف کل نمبروں کا حساب لگایا اور انہیں گزٹ میں شامل کیا۔ دو سافٹ وئیر کے مماثل نہ ہونے کی وجہ سے گریڈ گریس کو گزٹ میں شامل نہیں کیا گیا جو کہ واضح طورپر نا اہلی کو ظاہر کرتا ہے اور بورڈ انتظامیہ اسے بہتر کرنے کے حوالے سے بالکل ناکام رہی ۔
بورڈ نے پہلی بار آپٹیکل مارک ریکگنیشن (OMR) سسٹم متعارف کرایا اور جوابی/تحریری پرچوں کی جانچ/چیکنگ میں شامل اساتذہ کو اس حوالے سے کسی قسم کی کوئی تربیت فراہم نہیں کی گئی تھی ، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر غلطیاں سرزد ہوئیں۔ یہ بورڈ انتظامیہ کے لیے ایک بڑا مسئلہ تھا۔ کمیٹی نے سسٹم پرووائیڈر کنسلٹنگ فرم اور بورڈ انتظامیہ دونوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
اس طرح کے جدید/نئے نظام کو نافذ کرانے سے پہلے مکمل تربیت فراہم کرنا ضروری ہے۔ تاہم انتظامیہ کمیٹی کو مطمئن نہیں کر سکی کیونکہ انہوں نے صرف مسائل کی نشاندہی کی لیکن ان کی روک تھام کے حوالے سے کوئی ضروری اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔پرانے اور نئے طلباء کے ریکارڈز کے حوالے سے یا پھر اسکیمز پر عملدرآمد اور دیکھ بھال کے حوالے سے سسٹم مناسب طریقے سے کام نہیں کررہا تھا۔ مکمل گزٹ کے باوجود بھی کسی طرح کا کوئی حل پیش نہیں کیا گیا۔ بہت سے سوالات درج کرنے پر بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اور یہاں تک کہ ایک طالب علم کو ایک کنسولیڈیٹڈ مارک شیٹ حاصل کرنےکے لیے متعدد بار رجوع کرنا پڑتا ہے۔
ناقص کارکردگی کے ذمہ دار: پوری امتحانی ٹیم بشمول کنٹرولر، ڈپٹی کنٹرولر، اسسٹنٹ کنٹرولر اور آئی ٹی ٹیم نتائج میں ہونے والے رد وبدل کی ذمہ دار ہے۔ ان کی ناقص کارکردگی کی جانچ کے حوالے سے دیگر ایجنسیوں جیسے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی رپورٹ کی شکل میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ کمیٹی نے تمام مجرم افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کی سفارش کی جیسا کہ بورڈ انٹرنل انکوائری رپورٹ میں بھی اس کاذکر موجود ہے۔ کمیٹی نے شکایت کی کہ چیئرمین سمیت کسی بھی افسر نے مارک شیٹ کی فراہمی کے حوالے سے ان سےتعاون نہیں کیا، مسلسل کہنے کے باوجود بھی سلیکٹڈ مارک شیٹس تک فراہم نہیں کی گئیں تاکہ ہم حقیقت تک پہنچ سکیں۔ امتحانی عمل سے منسلک بورڈ کے مختلف شعبوں کا جائزہ لینے کے بعد کمیٹی نے کہا کہ آئی ٹی سیل، سافٹ ویئر کنسلٹنگ فرم اور کنٹریکٹ ایڈمنسٹریشن کی کارکردگی ناقص رہی اور اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا نے سے کتراتی رہیں ۔ مزید برآں انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ امتحانی برانچ کے عملہ نے مکمل طورپر لاپرواہی کا مظاہر ہ کیا۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سہارا لیتے رہے جو کہ انتہائی غیر پیشہ ورانہ ہے۔کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ بورڈ چیئرمین اصلاحات متعارف کرانے اور پرانے اور نئے سلسلے میں تسلسل پیدا کرنے میں ناکام رہےجس کی وجہ سے بورڈ کی مجموعی کارکردگی کو نقصان پہنچا۔ مذکورہ بالا رپورٹ کی روشنی میں نگران وزیراعلیٰ سندھ نے بطور وزیر انچارج/کنٹرولنگ اتھارٹی کے انکوائری کمیٹی کے پیش کردہ سفارشات کی منظوری دے دی ہے۔