وزارت تعلیم سندھ کا لاکھوں طلباء کے مستقبل سے کھلواڑ ثابت ہوگیا


انٹر سال اول کے متنازع نتائج کی جانچ کے لیے بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں انکشاف

گیارہویں جماعت کے طلبہ و طالبات کو "گریس مارکس” دینے کی سفارش کردی گئی

جسٹس فور اسٹوڈنٹس کا احتجاج رنگ لانے لگا، نمرہ خان

تعلیمی شعبوں میں فی الفور تجربہ کار افسران تعینات کیے جائیں، بانی و سربراہ جسٹس فور اسٹوڈنٹس


کراچی (رپورٹ: کامران شیخ )

وزارت تعلیم سندھ کا لاکھوں طلبہ و طالبات کے ساتھ کھلواڑ سامنے آگیا،، انٹر سال اول کے متنازعہ نتائج پر بنائی جانیوالی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں فیل طلبہ کی تعداد میں اضافے کی ذمہ داری انٹر بورڈ کراچی کے ساتھ وزارت تعلیم سندھ پر عائد کی ہے،
حکومت سندھ کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے انٹر سال اول کراچی بورڈ کے متاثرہ طلبہ  کو گریس مارکس دینے کی بھی سفارش کردی،
ذرائع کے مطابق کمیٹی نے اپنی رپورٹ مکمل کرکے محکمہ بورڈز و جامعات کو جمع کرادی ہے ذرائع کے مطابق تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2023 کے نتائج میں طلبہ کی بڑی تعداد کے فیل ہونے کی وجوہات میں نصاب کی تبدیلی کے بعد درسی کتابوں کی عدم دستیابی، مارکنگ اسکیم کا تاخیر سے اعلان، ایم سی کیوز کم کرنے اور ممتحن کی جانب سے سخت مارکنگ کو قرار دیا گیا ہے،واضح رہے کہ انٹر سال اول کے نتائج 9 جنوری کو جاری ہوئے تھے پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ کے امتحانی نتائج 34 سے 36 فیصد تھے جو گزشتہ برسوں کے مقابلے میں 8 سے 10 فیصد تک کم تھے اور طلبہ کی بڑی تعداد کے امتحانات میں ناکامی کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔طلبا کے احتجاج پر نگراں وزیر اعلی سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی کی سربراہی میں 3 فروری کو ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کی تھی، کمیٹی میں آئی بی اے کراچی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر اکبر زیدی اور سندھ ایچ ای سی کے سیکریٹری معین صدیقی کو بھی شریک کیا گیا تھا۔کمیٹی نے ایک ہفتے تک مسلسل تحقیقات کی۔ بورڈ افسران، ہیڈ ایگزامنر، ایکزامنر اور پیپر سیٹرز پر مشتمل 28 افراد کے انٹرویوز کیے جبکہ 300 کے قریب امتحانی کاپیوں کی از سر نو جانچ کرائی گئی جس کے بعد کمیٹی نے اپنی رپورٹ تیار کی ہے
ذرائع کے مطابق تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ انٹر سال اول کے متعلقہ فیکیلٹیز کے طلبہ کو فزکس، کیمسٹری، زولوجی، بوٹنی، ریاضی اور شماریات کے مضامین میں علیحدہ علیحدہ گریس مارکس دے دیے جائیں جس میں 0 نمبر سے انتہائی سطح تک گریس مارکس دیے جائیں، جبکہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایگزامنر نے دوران چیکنگ انتہائی سخت مارکنگ کی اور جہاں 4 مرکس دینے کی گنجائش موجود تھی وہاں 2 مارکس دیے گئے جبکہ ایک اور وجہ پیپر پیٹرن کا انتہائی تاخیر سے اعلان بھی تھا اس اعلان کے تحت نئے پیٹرن میں ایم سی کیوز کا حصہ بھی 40 فیصد سے 20 فیصد کیا گیا جو کوویڈ کے بعد پہلی بار تھا اور ایم سی کیوز کا پورشن کم ہونے سے بھی طلبہ کی مارکنگ پر اثرات مرتب ہوئے۔ دوسری جانب جسٹس فور اسٹوڈنٹس کی بانی و سربراہ نمرہ خان نے کہا ہے کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ نے طلبہ و طالبات کی نشاندہی کو درست ثابت کردیا ہے انھوں نے کہا کہ تعلیمی شعبوں میں جب تک اہل اور تجربہ کار افراد کو تعینات نہیں کیا جاتا تب تک مسائل حل نہیں ہونگے

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*