پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا، چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے فیصلہ سنا دیا
پی ٹی آئی سے بلے کا انتخابی نشان چھن گیا، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کا فیصلہ سنا دیا، جس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی بلے کے نشان کی اہل نہیں، پی ٹی آئی ہماری ہدایات پر عمل کرنے میں ناکام رہی۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی پارٹی آئین کے مطابق الیکشن کروانےمیں ناکام رہی۔
الیکشن کمیشن کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی کو درخواست گزاروں نے چیلنج کیا تھا، الیکشن کمیشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ نے بھی انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراضات اٹھائے.
پی ٹی آئی کے مبینہ نئے چیئرمین نے انٹراپارٹی الیکشن سے متعلق دستاویز جمع کروائیں، پی ٹی آئی پر عام اعتراض یہ تھا کہ پارٹی آئین کے تحت انتخابات نہیں کروائے، پی ٹی آئی پر اعتراض تھا کہ اس نے خفیہ طور پر انتخابات کروائے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اعتراض تھا کسی بھی ممبر کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی، پی ٹی آئی کے دفتر میں کاغذات نامزدگی نہیں تھے، یہ بھی اعتراض تھا کہ خواہاں شخص نے بلے کا انتخابی نشان لینے کے لیے ایسا کیافیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ نے پی ٹی آئی کو سوالنامہ دیا، پولیٹیکل فنانس ونگ نے نیاز اللّٰہ نیازی کی بطور چیف الیکشن کمشنر تعیناتی پر اعتراض اٹھایا، عمر ایوب کو کسی آئینی فورم نے سیکریٹری جنرل تعینات نہیں کیا، عمر ایوب نیاز اللّٰہ نیازی کو پارٹی چیف الیکشن کمشنر تعینات نہیں کر سکتے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات کروانے کا کوئی اختیار نہیں تھا، الیکشن کمیشن کو پارٹی کے سابق چیف الیکشن کمشنر جمال اکبر انصاری کا کوئی استعفیٰ نہیں ملا، جمال اکبر انصاری کو ہٹانے کی بھی کوئی دستاویزات نہیں، پی ٹی آئی کے آئین کے مطابق وفاقی الیکشن کمشنر 5 سال کے لیے تعینات ہوتا ہے، پی ٹی آئی کی جانب سے جمال اکبر انصاری کو عہدے سےہٹانے کی کوئی قرارداد جمع نہیں ہوئی۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے وکیل نے اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی الیکشن کمشنر کی تعیناتی میں طریقہ کار اختیار نہیں ہوا، پی ٹی آئی کے 2017 میں منتخب عہدیداران کی مدت ختم ہوچکی ہے، عمر ایوب کبھی بھی پی ٹی آئی کے آئینی سیکریٹری جنرل منتخب نہیں ہوئے، اسد عمر دستیاب ریکارڈ کے مطابق پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہیں، پی ٹی آئی کے آئین میں کچھ ایسا نہیں کہ چیئرمین عہدیداران کی معیاد بڑھا سکتا ہے۔
اس سے پہلے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے کہا تھا کہ وہ اپنے انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کروائے، پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کروائے جن میں گوہر خان کو بلا مقابلہ چیئرمین منتخب کیا گیا تھا۔
تاہم اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی کہ پی ٹی آئی کے الیکشن اس کے آئین کے مطابق نہیں ہوئے، جس کے بعد یہ کیس الیکشن کمیشن میں چلا۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد بیرسٹر گوہر علی چیئرمین پی ٹی آئی نہیں رہے۔
پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو فیصلے سے روکا لیکن پھر آج فیصلے کی ہدایت کی۔
اس سے قبل پی ٹی آئی کا وفد لیول پلیئنگ فیلڈ کے مطالبات لے کر الیکشن کمیشن دفتر پہنچا تھا، جہاں الیکشن کمیشن نے وفد کو یقین دہانی کروائی۔
الیکشن کمیشن حکام سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں پی ٹی آئی وفد کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے ارکان نے ان کے تحفظات نوٹ کیے اور یقین دلایا کہ جن ریٹرننگ افسروں اور پولیس افسروں نے پی ٹی آئی کے لیے مسائل پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، انہیں جلد تبدیل کردیا جائے گا۔
پی ٹی آئی وفد کے ارکان نے امید ظاہر کی تھی کہ صاف شفاف الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن پاکستان اپنا کردار ادا کرے گا