کراچی آگ کی لپیٹ میں

جرائم کی دنیا

رپورٹ عارف اقبال۔

کراچی میں گزشتہ 10 دونوں میں آگ کے دوبڑے واقعات میں 16 افراد جھلس کر جانبحق اور 50 سے زائد زخمی ہوگئے جبکہ آگ کے اس واقعہ میں متاثرین کروڑوں روپئے کے مال و متاع سے بھی محروم ہوگئے ایسے واقعات میں وہ لوگ جو امداد دیا کرتے تھے ایک ہی رات میں وہ امداد کے مستحق ہوجاتے ہیں جبکہ صوباءحکومت کی انتظامی امور کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کا کتنا درد رکھتے ہیں 10 روز قبل راشد منہاس روڈ پر واقع آر جے شاپنگ مال میں لگنے والی آگ کی راکھ ٹھنڈی بھی نہیں ہوپاءتھی کہ منگل کے روز عائشہ منزل پر واقع عرشی شاپنگ سینٹر میں خوفناک آتشزدگی نے شہری اداروں خصوصاً فائر بریگیڈ کی کارکردگی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے اور ان حادثات میں اداروں کا رویہ دیکھ کر باسیوں کو خوف میں مبتلا کردیا ہے ان جیسے واقعات میں اگر لوگ اپنی جانیں بھی بچالیں تو وہ زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم ہوجاتے ہیں جس کی ذمہ داری شہری و صوباءحکومت بھی نہیں لیتی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 10 دنوں کے وقفے سے آگ لگنے کے دو بڑے واقعات میں لواحقین اور متاثرین کی داد رسی کے لیئے حکومت کی جانب سے تاحال کوءاعلان نہیں کیا گیا رواں برس کراچی میں آتشزدگی کہ 1659 سے زائد چھوٹے بڑے واقعات رونما ہو چکے ہیں جبکہ یکے بعد دیگرے آگ کے واقعات آر جے شاپنگ مال میں جھلس کر اور دم گھٹنے سے 11 جبکہ عائشہ منزل پر واقع عرشی شاپنگ مال میں آتشزدگی سے 5 افراد جاں بحق ہوئے ہیں یہ سارے افراد اپنے گھر کے کفیل تھے جبکہ صرف عرشی مال میں 180 سے زائد دکانیں اور کروڑوں کا سامان خاکستر ہوگیا اور طرہ یہ کہ آگ لگنے کی حتمی وجہ تا حال سامنے نہیں آسکی۔ ابتدائی طور پر وجہ شارٹ سرکٹ ہونا قرار دی جارہی ہے۔ جبکہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے عرشی شاپنگ مال اور سینٹر کو رہائش کے قابل قرار دے کر ڈی سیل کر دیا ہے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ مقدمہ آگ لگنے کی اصل وجہ سامنے آنے کے بعد درج کیا جائے گاآتشزدگی کے اس واقعے میں پانچ افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔

جن میں سے ایک سوختہ لاش فلاحی رضاکاروں کو دکان سے ملی۔ اس واقعے میں جاں بحق ہونے والوں میں غلام رضا ولد رجب علی نعمان بیگ ولد مرزا امین بیگ، اسام? ولد عبد الرحمن ، ریاض ولد رمضان اور ایک نامعلوم شخص شامل ہے۔ جس کی شناخت کیلئے ڈی این اے اے سیمپل حاصل کر لیا گیا ہے۔آتشزدگی سے جاں بحق ریاض احمد اور نگی ٹاو¿ن کا رہائشی تھا۔ اس واقعے نے اس کے خاندان پر بجلی گرادی ہے۔ ریاض احمد کی بیوہ کا میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ اب ہماری دیکھ بھال کون کرے گا۔ میرے بچوں کو اسکول کون بھیجے گا۔ حکومت صرف اعلانات کرتی ہے اور پھر غائب ہو جاتی ہے۔ کوئی ذمہ داری نہیں لیتا۔ اس غفلت کا عوام کو خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ مہربانی کر کے اس بار حکومت ٹھوس اقدامات کرے اور کچھ ایسا کرے کہ ایسے واقعات دوبارہ رونمانہ ہوں۔ تا کہ کوئی عورت بیوہ اور بچے یتیم نہ ہوں عرشی شاپنگ مال میں خوفناک آگ کا ایک اور متوفی نعمان بیگ چار بچوں کا باپ تھا اور واقعے کے وقت وہ اور اس کا بھائی بازار میں موجود تھے۔ نعمان بیگ کے بھائی عاصم بیگ کا کہنا تھا میں تو اس خوفناک آگ سے بچ گیا۔ مگر میرا بھائی جان کی بازی ہار گیا۔ ایک اور جاں بحق شخص غلام رضا کا تعلق منگھو پیر کے علاقے سے تھا متوفی نعش پہنچنے پر علاقے میں کہرام مچ گیا متوفی غلام رضا کی نماز جنازہ علاقے کی مسجد میں ادا کر کے اسے مقامی قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا عرشی شاپنگ مال یونین کے سابق سیکریٹری نے بتایا کہ بلڈنگ کے اپری حصے میں رہائشیوں کے لیئے مال کے دوسری طرف سے رستہ ہے جبکہ شاپنگ سینٹر میں آنے جانے والوں کے لیئے نیچے 8 رستے موجود ہیں اور آگ جس طرح پھیلی تھی اگر دکاندار اور مکینوں کا ایک ہی رستہ ہوتا تو لاتعداد ہلاکتوں کا خدشہ تھا گزشتہ سال جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ عالمی معیار کے مطابق ایک لاکھ کی آبادی پر ایک ماڈل فائر اسٹیشن میں چار گاڑیاں اور 144 افراد کا عملہ ہونا ضروری ہے اس حساب سے دو کروڑ سے زائد آبادی کے شہر کو 200 فائر اسٹیشن 800 گاڑیاں اور 2800 کا عملہ درکار ہونا چاہیئے لیکن ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے میٹرو پولیٹن اور ڈھاءکروڑ آبادی والے شہر کراچی میں اس وقت آتشزدگی کے واقعات سے نمٹنے کے لئے صرف 42 گاڑیاں ہی فعال ہیں جبکہ ماضی میں ان کی تعداد 100 سے زائد تھی جن میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ کئے جانے کے بجائے کمی واقع ہوتی چلی گئی جو کہ سابقہ صوبائی حکومت کی نااہلی کامنہ بولتا ثبوت ہے۔ فائر بریگیڈ کے عملے میں 240 ڈرائیوروں کی گنجائش موجود ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت مذکورہ محکمہ میں صرف 90ڈرائیور ہی کام کر رہے ہیں جن میں سے زیادہ تر ڈرائیور کے ایم سی افسران کے ماتحت ہیں اور پورے عملے میں ڈائریکٹر سمیت 700 ملازمین اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ کراچی کو سنبھالنے کے لئے شہر بھر میں 30 فائر اسٹیشن تھے جس میں سے اب صرف 18 فائر اسٹیشن ہی متحرک میں باقی تمام فائر اسٹیشن کسی نا کسی وجوہات کے باعث غیر متحرک کر دیئے گئے ہیں۔

اور فائربریگیڈ کے پاس مجموعی طور پر 5 فائراسنارکل تھیں جو کہ بروقت مینٹینس ناہونے کے باعث ناکارہ ہو چکی ہیں جن میں سے صرف دو فائر اسنارکل ہی کراچی بھر کے لئے کام کر رہی ہیں۔ مگر جو فائراسنارکل اس وقت کراچی میں کام کر رہی ہیں ان کے پاس زائد المنزلہ عمارت میں آگ لگ جانے کی صورت میں آگ پر قابو پانے کی صلاحیت ہی موجود نہیں ہے۔ محکمہ فائر بریگیڈ کی نا کارہ کردی گئی گاڑیوں کا ایک قبرستان گلستان مصطفی فائر اسٹیشن فیڈرل بی ایریا بلاک 20 میں ہے، جہاں 1997 کی فائربریگیڈ کی گاڑیاں تباہ حال کھڑی ہیں اور ان گاڑیوں کو قابل استعمال بنانے کے بجائے ان کے کارآمد پارٹس بھی چوری کر کے بیچ دیا گیا وفاقی حکومت کی جانب سے 2020 میں محکمہ فائربریگیڈ کیلئے 52 گاڑیاں بھیجی گءتھیں۔ اس وقت کے گورنر سندھ نے لانڈھی، فیڈرل بی ایر یا کورنگی ایسوی ایشن اور سندھ رینجرز کو دوگاڑیاں دی تھی جو کہ اب شہر میں دکھائی نہیں دیتی ہیں یہ گاڑیاں کہاں گئی اس بارے میں کسی کو بھی کچھ علم نہیں ہے۔ اس وقت محکمہ فائربریگیڈ میں اتنے بڑے شہر میں بہتر کارکردگی کیلئے جہاں مزید فائر ٹینڈرز کی ضرورت ہے وہیں افرادی قوت بڑھانے کی بھی ضرورت ہے تا کہ شہر میں آگ لگنے کی صورت میں محکمہ فائر بریگیڈ بروقت اور پورے وسائل کے ساتھ خدمات سر انجام دے سکے جس سے کم سے کم جانی اور مالی نقصان ہو جبکہ نگران وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے کہا ہے کہ عرشی شاپنگ مال میں پیش آئے آتشزدگی کی تفتیش اور انکوائری کے بعد جو بھی نتیجہ سامنے آئے گا اس کے مطابق عمل در آمد کیا جائیگا عرشی شاپنگ مال کی عمارت کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے نگران وزیراعلی سندھ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کا مزید کہنا تھا کہ یقینا یہ بہت بڑا سانحہ ہے جس پر جتنے دکھ کا اظہار کیا جائے وہ کم ہے یقینی طور پر اس کے ذمے دار مختلف محکمے ہیں سب سے پہلے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا عملے کی ذمے داری ہے انھیں دیکھنا چاہیے کہ فائر سیفٹی کے انتظامات ہوں اتفاق ہے کہ ان حادثات سے پہلے ہی انھوں نے کمرشل ور رہائشی عمارتوں میں فائر سیفٹی آڈٹ کے حوالے سے واضح احکامات دید یے تھے تاکہ عمارتوں میں کوءکمی کوتاہیاں موجود ہیں تو انہیں دور کیا جائے اور اب جن کی وجہ سے کمی کوتاہیاں رہ گئی تھی انہیں قرار واقعی سزادی جائے گی نگراں وزیراعلی نے بتایا کہ متاثرین کو عارضی شیلٹر اور فوڈ آفر کی ہے اس وقت سب لوگ اس سلسلے میں تعاون کریں ضروریات زندگی کی تمام اشیا کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ہم دیکھتے ہیں اس طرح کے واقعات کے سدباب کے لیے کس طرح بہتری لاسکتے ہیں ، بلڈنگوں کا براحال ہے اور اب بلڈنگ رولز پر سختی سے عمل ہوگا




کیپشن ….

گلستان فائر اسٹیشن فیڈرل بی ایریا بلاک 20 میں فائر بریگیڈ کی گاڑیاں لاوارث کھڑی ہیں
عرشی شاپنگ سینٹر میں خوفناک آتشزدگی کے بعد کا بیرونی منظر
عرشی شاپنگ مال آتشزدگی سے متاثرہ خواتین فٹ پاتھ پر افسردہ بیٹھی ہیں
آتشزدگی کے دوران دکاندار اپنا بچا کچا سامان آگ سے بچا رہے ہیں جبکہ پولیس کی بھاری نفری بھی موقع پر موجود ہیں
آتشزدگی کے بعد ایک دکان کا سامان راکھ بن گیا
خوفناک آتشزدگی میں جلنے والی کار اور موٹر سائیکلوں کا ملبہ
عرشی شاپنگ مال میں آتشزدگی سے متاثرہ دکاندار احتجاج سڑک پر بیٹھے ہیں
فائر بریگیڈ کا عملہ آگ بجھا رہا ہے

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*