
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
عدالت عالیہ نے نواز شریف کی دس سال کی سزا اور جرمانے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نواز شریف کو بری کردیا۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلوں پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بینچ نے سماعت کی۔
ججز کی آمد سے قبل عدالتی اسٹاف کی جانب سے کمرہ عدالت میں موبائل فون سائلنٹ رکھنے کی ہدایات کی گئی۔
ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کا مکمل متن
نواز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ روسٹرم پر آ ئے اور انہوں نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے شریک ملزمان مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو اپیل منظورکرکے بری کیا گیا۔ شریک ملزمان پر اعانت جرم کا الزام تھا۔
امجد پرویز نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے شریک ملزمان کی برییت کا فیصلہ حتمی صورت اختیار کرچکا ہے۔
نوازشریف کے وکیل نے نیب آرڈیننس کی مختلف سیکشنز پڑھ کر سنائے اور کہا کہ نیب آرڈیننس میں بے نامی دارکی تعریف کی گئی ہے۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں سزا معطلی بھی اسی بنیاد پر ہوئی تھی۔ سزا معطلی کے فیصلے میں ہم نے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کا سہارا لیا تھا۔ سزا معطلی کے فیصلے سے تاثر ملتا تھا کہ جیسے اپیل منظور کرلی گئی۔انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں مزید وضاحت کی ہے اس پر ہماری معاونت کریں۔
نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ ظاہر کردہ آمدن کے ساتھ یہ بتانا تھا کہ اثاثے بناتے وقت اس کی قیمت کیا تھی؟ نیب کوآمدن اور اثاثوں کی مالیت سے متعلق تقابل پیش کرنا تھا۔ اس کے بعد یہ بات سامنے آنی تھی کہ اثاثوں کی مالیت آمدن سے زائد ہے یا نہیں۔
امجد پرویز نے یہ بھی کہا کہ اس تقابلی جائزے کے بغیر تو آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا جرم ہی نہیں بنتا۔ ایسے کیسز تھے جن میں اثاثوں کی مالیت کا علم تھا مگر آمدن کا نہیں۔ ایسے کیسز میں عدالت نے قرار دیا کہ آمدن معلوم نہ ہونے کے باعث کیس نہیں بنتا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ یہ پراپرٹیز مختلف اوقات میں حاصل کی گئیں جس پر وکیل امجد پرویز نے کہا کہ میں ان کی ڈیٹس آپ کو بتا دیتا ہوں۔ 1993 سے 1996 کے دوران یہ پراپرٹیز بنائی گئیں۔