دوست پیسوں کے لالچ میں جان کا دشمن بن گیا

جرائم کی دنیا

رپورٹ عارف اقبال

15 نومبر 2023 سچل تھانے کی حدود سرسید چوک قریشی سوسائٹی اسکیم 33 مین روڈ پر فائرنگ سے ایک شدید زخمی شخص کی اطلاع پر سچل پولیس موقع پر پہنچی اور مضروب کو تشویشناک حالت میں طبی امداد کیلئے عباسی اسپتال منتقل کیا ۔ لیکن زخمی کی حالت دیکھ کر عباسی ایمر جنسی میں موجود ڈاکٹروں نے مضروب کو جناح اسپتال منتقل کیا۔ جہاں دوران علا ج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مضروب دم توڑ گیا ۔ ایس ایچ او سچل اورنگزیب خٹک کے مطابق مقتول مذکورہ مقام پر شدید زخمی حالت میں پولیس کو سڑک سے ملا اور نامعلوم ملزم یا ملزمان نے مقتول کے سر میں ایک گولی ما ر کر جائے وقوعہ سے فرار ہوگئے ۔ تفتیش کے دوران پولیس کو جائے وقوعہ سے 9MM گولی کا ایک خول ملا ہے ۔ تاہم پولیس نے مقتول کے لواحقین سے رابطہ کیا ایس ایچ او کے مطابق مقتول کی شناخت صہیب نثار کے نام سے ہوئی اور اہل خانہ کے مطابق مقتول صہیب بائیو مکینیکل انجینئر تھا۔ مقتول ایک بیٹے کا باپ اور نارتھ ناظم آباد بلاک آئی کا رہائشی تھا۔ اہل خانہ نے پولیس کو بتایاکہ واقعہ سے قبل مقتول گھر سے صفورا گوٹھ رقم کی ریکوری کا بتا کر نکلا تھا۔ مقتول کے پاس 2016 کی سوک گاڑی اور دوموبائل فونز تھے جو پولیس کو موقع سے نہیں ملے پولیس نے کرائم سین یونٹ کو طلب کرکے موقع سے شواہد اکٹھے کئے۔ایس ایچ او کے مطابق ابتدائی طورپر واقعہ ڈکیتی کے دوران مزاحمت کرنے کا شاخسانہ نظر آتاہے لیکن پولیس تفتیش کررہی ہے پولیس نے تمام قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعد مقتول کی نعش تدفین کیلئے ورثا کے حوالے کردی ۔ جہاں واقعہ کے دوسرے روز بعد نماز ظہر مقتول کی نماز جنازہ نارتھ ناظم آباد بلاک آئی صدیق اکبر مسجد میں ادا کی گئی ۔ جبکہ تدفین سخی حسن قبرستان میں کی گئی نماز جنازہ میں مقتول صہیب نثار کے اہل خانہ ‘ عزیز واقارب سیاسی ومذہبی جماعت کے رہنماﺅں اور علاقہ مکینوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اس موقع پر مقتول صہیب کے ایک دوست نے نمائندہ ریاست سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مقتول صہیب شریف النفس اور کاروباری شخص تھااور واقعہ عام ڈکیتی کی واردات نہیں لگتی ۔ کیونکہ ڈکیتی کرنے والا گاڑی سے اتار کر اور سڑک پر بیٹھانے کے بعد فائرنگ نہیں کرتا تاہم پولیس نے تدفین کے بعد واقعہ کا مقدمہ الزام نمبر 1347/23 مقتول کے برادر نسبتی فہیم الدین شیخ کی مدعیت میں درج کی ۔ مدعی فہیم الدین نے پولیس کو بتایا کہ میں گلستان جوہر نمبر 15 کا رہائشی اورسرکاری ملازم ہوں۔ واقعہ والے روزحسب معمول میں اپنی ڈیوٹی پر تھا کہ بذریعہ فون میری بہن ڈاکٹر نازیہ نے مجھے اطلاع دی کہ میرے بہنوئی صہیب نثار کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور وہ عباسی اسپتال میں تھے اور اب انہیں جناح اسپتال شفٹ کیا جارہاہے ۔

اس اطلاع پر میں اپنے دوست نعمان ہارون کے ساتھ جناح اسپتال پہنچا تو جناح اسپتال ایمر جنسی وارڈ میں میرے بہنوئی صہیب نثار موجود تھے اور دوران علاج فوت ہوچکے تھے میں نے معلومات لی تو پتہ چلا کہ میرے بہنوئی صہیب نثار آج مورخہ 15 نومبر کو اپنے گھر واقع نارتھ ناظم آباد سے صبح ساڑھے نو بجے کے قریب اپنی گاڑی جس کا رجسٹریشن نمبر BCW-343ہے میں سوار ہوکر اپنی بیوی اور میری بہن ڈاکٹر نازیہ جوکہ کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل اسپتال میں ڈاکٹر ہیں بہن کو ڈیوٹی پر چھوڑا اور پھر اپنے کام سے چلے گئے تھے ۔ جبکہ مین روڈ سرسید چوک نزد قریشی سوسائٹی اسکیم 33 میں بوقت دن کے ایک سے دو بجے کے درمیان کسی نامعلوم شخص یا اشخاص نے نامعلوم وجوہ پر گولی ماری جو ان کے سر پر لگی ۔ جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے اور جناح اسپتال میں دوران علاج فوت ہوگئے ۔ میرا دعوی ہے کہ نامعلوم ملزمان میرے بہنوئی 42 سالہ صہیب نثار کو جان سے مارنے کی نیت سے سر میں گولی مار کر قتل کرنے کا ہے کارروائی کی جائے ۔ پولیس نے مقدمہ درج ہونے پر تفتیش کا باقاعدہ آغاز کیا ۔ اس دوران پولیس نے مقتول بائیو مکینیکل انجینئر صہیب نثار کا فون کو ئٹہ ٹاﺅن کے عقب سے برآمد کیااور دو ملزمان کو حراست میں لیا۔ پولیس کے مطابق حراست میں لئے گئے دو افراد سے جب تفتیش کی گئی تو زیر حراست افراد نے بتایا کہ یہ موبائل فون انہیں سڑک کنارے پڑا ملا تھا ۔ جس کو انہوںنے اٹھا لیا تھا ۔ تاہم پولیس نے تفتیش کا سلسلہ جاری رکھا اس دوران پولیس کو گلزار ہجری کے علاقے میں مقتول صہیب کی گاڑی کھڑی ہونے کی اطلاع ملی جس پر پولیس فوری کارروائی کرتی ہوئی جائے وقوعہ پر پہنچی اور مقتول صہیب کی گاڑی قبضے میں لے لی ۔ ایس آئی او سچل غلام حسین پیر زادہ نے نمائندہ قومی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت پولیس اس پر بھی تحقیقات شروع کی کہ مذکورہ مقام گاڑی کس نے کھڑی کی اور اس سوال کا جواب جاننے کیلئے پولیس نے اس مقام پر لگی سی سی ٹی وی کیمرے کی تلاش شروع کی تو انہیں ایک گھر سے جو گاڑی کھڑی ہونے کے بالکل سیدھ پر تھا ۔ اس گھر سے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی اس فوٹیج میں ایک شخص مقتول کی گاڑی کھڑی کرتا ہوا نظر آیا اور فوٹیج میں آنے والی ٹائمنگ واردات کے 20 سے 25 منٹ بعد کی آرہی تھی جس کے بعد پولیس نے مقتول کے لواحقین سے رابطہ کیا اور ملزم کی شناخت کیلئے انہیں فوٹیج دکھائی گئی کیونکہ پولیس کو یقین تھا کہ جس نے بھی واردات سے 20 سے 25 منٹ بعد مذکورہ مقام پر گاڑی کھڑی کی وہی قاتل ہے یا وہ اس واردات کا ماسٹر مائنڈ ہوگا ۔ تاہم جیسے ہی لواحقین نے سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھا وہاں موجود تمام لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔ کیونکہ واقعہ کے 20 سے 25 منٹ بعد گلزار ہجری میں گاڑی کھڑی کرنے والا شخص کوئی اور نہیں مقتول کے بچپن کا دوست اور بزنس پارٹنر عاصم تھا ایس آئی او کے مطابق لواحقین نے بتایا کہ عاصم اور مقتول صہیب کی دوستی تین سال کی عمر سے ہی تھی اور دونو ں تعلیم اور دیگر شعبو ں میں ساتھ ساتھ رہتے تھے ۔ جس کے بعد پولیس عاصم کو حراست میں لینے کیلئے اس کے گھر سومار گوٹھ پہنچی ۔ لیکن پھر ایک ڈرامائی موڑ آیا کہ جب پولیس عاصم کو حراست میں لینے کیلئے اس کے گھر پہنچی تو ملزم عاصم نے اپنے پاس سے پستول نکال کر کنپٹی پر پستول رکھ کر اپنے آپ کو گولی مار لی جس کی وجہ سے ملزم موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا ۔ ایس آئی او غلام حسین پیرزادہ نے مزید بتایا کہ مقتول صہیب گاڑیوں اور کیمیکل سپلائی کا بزنس کرتا تھا جس میں اس نے اپنے مزید دودوستوں عاصم اورسنی کو فیلڈ پارٹنر رکھا ہوا تھا اس بزنس میں زیادہ شیئر مقتول صہیب کا تھا ۔ جبکہ ملزم عاصم اور سنی اس کے فیلڈ پارٹنر تھے جب کاروبا ر چل پڑا اور پیسوں کی آمد شروع ہوئی تو مقتول کے پارٹنر کی نیت خراب ہونے لگی اور تین سال قبل شروع ہونیوالے کاروبار میں معاملہ ڈھائی سے تین کروڑ روپے کا آگیا ۔ جس میں ان لوگوں کے درمیان تلخی شروع ہوگئی اور واقعہ والے روز بھی مقتول انجینئر صہیب نثار کاروباری حساب کتاب کیلئے ملزم سے ملا تھا کہ ملزم عاصم نے فائرنگ کرکے اپنے دوست کی جان لے لی تاہم پولیس واقعہ کی مزید تفتیش کررہی ہے ۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*