
جرائم کی دنیا
رپورٹ عارف اقبال
وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے ….!!
اورنگی ٹائون گلشن بهار میں نعت خوانی کی محفل میں جانیوالا فوری بعد مجھے رحيم الله دهشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ کیوں بن؟
12 نومبر 2023 کی رات اورنگی ٹاون گلشن بہار کی مرکزی شاہراہ پر ٹریفک کی روانی جاری تھی بسیں ، ویگنیں ، رکشہ، ٹیکسی اور موٹر سائیکلیں اپنی اپنی رفتار کے ساتھ اس مرکزی شاہراہ سے گزر رہی تھی انہیں گاڑیوں میں ایک ایسی موٹر سائیکل بھی شامل تھی جس پر ایک باریش نوجوان سوار تھا اور اسکا رخ جرمن اسکول سے گلش بہار مارکیٹ کی طرف تھا باریش نوجوان دوسری تیز رفتار گاڑیوں سے بچتا بچاتا اپنی رفتار سے موٹر سائیکل پر سوار اپنی منزل کی طرف جارہا تھا کہ وہ جیسے ہی گلشن بہار تارا پیلس سے کچھ پہلے برف ڈپو کے قریب سے گزر رہا تھا کہ عقب سے ایک تیز رفتار موٹر سائیکل باریش نوجوان کے موٹر سائیکل کے قریب آء اور اس پر سوار شخص نے اپنے پاس سے آتشی اسلحہ نکالا اور سیدھی اس باریش نوجوان پر دو گولیاں فائر کی اور اسی تیز رفتاری سے آگے کی طرف فرار ہوگیا فائرنگ کے نتیجے میں باریش نوجوان شدید زخمی ہوکر موٹر سائیکل سمیت سڑک پر گرگیا ابتداء لمحات میں تو وہاں سے گزرنے والے لوگ اور سڑک کنارے دکانداروں کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیا ہوا پھر اوسان بحال ہونے پر لوگوں نے اس جانب دیکھا جہاں وہ باریش نوجوان شاہراہ کے بیچوں بیچ پڑا تھا جن لوگوں نے فائرنگ کی آواز پر دھیان نہیں دیا انہوں نے سمجھا کہ یہ ٹریفک حادثہ ہے لیکن جنھوں نے فائرنگ کی آواز سنی وہ سمجھ گئے تھے کہ نامعلوم ملزمان نے اس باریش نوجوان پر فائرنگ کی اور موقع سے فرار ہوگئے اس واقعہ کی اطلاع ملنے پر پولیس فوری کاروائی کرتی ہوء جا ئے وقوعہ پر پہنچی اور ابتداء وقت میں زخمی بعدازں جانبحق ہونے والے نوجوان کی نعش قانونی کارروائی کے لیئے عباسی اسپتال منتقل کیا ایس ایچ او پاکستان بازار شکیل رند کے مطابق گلشن بہار مرکزی شاہراہ پر نامعلوم موٹر سائیکل سوار ملزمان کی فائرنگ سے جانبحق ہونے والے باریش نوجوان کی شناخت 30 سالہ مولانا رحیم اللہ کے نام سے ہوء اور ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آء ہے کہ مقتول سیکٹر 14 اللہ وارث اسٹاپ کے قریب جامع مسجد گلشن عطار میں موذن کے فرائض انجام دیتا تھا

جبکہ مقتول ثنائ اور نعت خواں بھی تھا اور واقعہ سے قبل مقتول مسجد سے گلشن بہار مارکیٹ سے آگے نعت خوانی کی محفل میں شرکت کے لیئے جارہا تھاکہ نامعلوم ملزمان نے عقب سے آکر دو فائر کیا اور موقع سے فرار ہوگیا مقتول کے چہرے پر ایک گولی لگی جو جان لیوا ثابت ہوء ایس ایچ او شکیل رند نے مزید بتایا کہ تفتیش کے دوران جائے وقوعہ سے پولیس کو 9MM پستول کے دو خول ملے جنھیں فارنزک کے لیئے بھیج دیا گیا جبکہ ٹارگٹ کلنگ کا شاخشانہ لگتا ہے کیونکہ مقتول کے پاس سے موبائل فون اور کچھ روپئے برآمد ہوئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقتول کے ساتھ کوء لوٹ مار نہیں کی گء جس کے بعد تمام قانونی کارواء کے بعد مقتول مولانا حافظ رحیم اللہ کی نعش ورثائ کے حوالے کردی واقعہ کے دوسرے روز مقتول کی نماز جنازہ جامع مسجد گلشن عطار کے سامنے اللہ وارث چوک پر ادا کی گء جس میں مقتول کے لواحقین عزیزواقارب اور دیگر مزہبی و سماجی شخصیات سمیت لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوء جبکہ مرحوم کو تھورانی گوٹھ سیکٹر 15 کے مرکزی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا بعداز تدفین پولیس نے واقعہ کا مقدمہ الزام نمبر 460/2023 مقتول کے سسر اقبال وارثی کی مدعیت میں درج کرکے تفتیش کا باقاعدہ آغاز کردیا مقتول کے سسر اقبال وارثی نے پولیس کو بتایا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ امام چوک پر چائے کی ہوٹل میں بیٹھا ہوا تھا کہ تقریباً رات ساڑھے دس بجے مجھے میرے بیٹے شہریار کی کال آء کہ آپ ابھی عباسی شہید اسپتال آجائیں رحیم اللہ کو گولی لگی ہے اس پر میں اپنے دوست نسیم کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار عباسی اسپتال پہنچا اور اپنے بیٹے شہریار سے ملا جوکہ مجھے اسپتال کے مردہ خانے لے گیا اور مجھے ڈیتھ باڈی دکھاء جو کہ رحیم اللہ کی تھی جس کے چہرے کے دائیں گال پر ایک گولی لگی ہوء تھی ہم قانونی کارواء کا انتظار کرتے رہے اس دوران پاکستان بازار تھانے کے پولیس افسر نے 174 کی کارواء مکمل کی اور پوسٹ مارٹم کروایا جس کے بعد نعش ہمارے حوالے کردیا جس کے اگلے روز رحیم اللہ کی نماز جنازہ اور تدفین کی گء اور میرا دعویٰ ہے نامعلوم شخص یا اشخاص کا میرے داماد پر آتشی اسلحہ سے فائر کرکے جان سے مار دینے کا ہیجبکہ مقتول کے بڑے بھاء جمیل اللہ نے نمائندہ ریاست اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مقتول رحیم اللہ میرا چھوٹا بھاء اور ابھی 6 ماہ کے بیٹے کا باپ تھا مقتول حافظ قران اور ابھی درس نظامی کا بھی کورس کررہا تھا اسے بچپن ہی سے ثنائ اور نعت خوانی کا شوق تھا اور ابھی تو اس نے نعت خوانی میں اپنا مقام بنایا تھا اور ابھی ہمیں پتہ چلا کہ واقعہ سے قبل مقتول بعد نماز عشائ نعت خوانی کی محفل میں شرکت کے لیئے جارہا تھا کہ تارا پیلس کے قریب موٹر سائیکل سوار ملزمان نے فائرنگ کرکے رستے میں ہی شہید کردیا جمیل اللہ نے مزید بتایا کہ میری رہائش لاہور میں ہیواقعہ کے فوری بعد مجھے اطلاع ملی کہ رحیم اللہ کے ساتھ ایسا واقعہ ہوگیا ہے جس میں وہ جانبحق ہوگیا اطلاع ملنے پر میں اپنی فیملی کے ساتھ لاہور سے کراچی کے لیئے روانہ ہوگیا اور میری ہی وجہ سے مقتول کی نماز جنازہ میں ایک روز تاخیر ہوء مقتول کے بھاء جمیل اللہ نے مزید بتایا کہ میری رحیم اللہ سے قریب ہر روز ہی فون پر بات ہوا کرتی تھی اسطرح ہم ایک دوسرے کی خیریت سے بھی باخبر رہتے تھے واقعہ سے ایک روز قبل میری رحیم اللہ سے بات ہوء جس میں اس نے والدہ کی طبعیت کے بارے میں کہا کہ آجکل والدہ کی طبعیت کچھ خراب سی رہ رہی ہے جس پر میں نے اسے والدہ کو موسم کی شدت سے بچانے کی تلقین کی ابھی ہم بات کر ہی رہے تھے کہ رحیم اللہ نے مجھے کہا کہ اب عشائ کی نماز کا وقت ہورہا ہے تو آپ مجھے بعد میں فون کرنا جس کے بعد ہمارا رابطہ منقطع ہوگیا لیکن پھر مجھے رات فون کرنا یاد نہیں رہا واقعہ والے روز شام 5 بجے اس نے مجھے میرے موبائل فون پر دو مرتبہ کالیں کیں لیکن شاید مصروفیت کی وجہ سے میں اسکی کال ریسیو نہیں کرسکا میں نے تقریباً رات ساڑھے آٹھ بجے اپنا موبائل فون دیکھا تو رحیم کی دو کالیں دیکھ کرمیں نے اسکو کال کی لیکن اسوقت مقتول کا موبائل فون آف جارہا تھا میں اسوقت یہ سمجھا کہ رحیم محفل میں ہوگا اسے فرصت ملے گی تو خود ہی کال کرلے گا جس کی وجہ سے میں نے اپنا موبائل فون رکھ دیا ابھی میں فون رکھ کر گھر میں ہی تھا کہ اچانک سرگودھا سے میرے بھاء کی کال آء میں نے کال ریسسیو کیا تو اس نے مجھے چھوٹتے ہی کہا کہ تم ابھی تک گھر سے نکلے نہیں جس پر میں نے اس سے حیرت سے پوچھا کہ میں اس وقت کہاں کے لیئے نکلوں جس پر میرے سرگودھا والے بھاء نے کہا کراچی کے لیئے میں نے حیرت سے پھر اس سے پوچھا کہ کراچی کس لیئے جاو?ں یہ پوچھتے ہوئے میرے دل میں خیال آرہا تھا کہ کہیں میری ماں کو تو کچھ نہیں ہوگیا اور اسی وجہ سے رحیم اللہ مجھے شام کو کال کررہا تھا لیکن دوسری جانب سے بھاء نے کہا کہ تم فوری کراچی کے لیئے نکلو میں بھی نکل رہا ہوں کراچی میں رحیم اللہ کو گولی لگی ہے بھاء کی اس بات پر مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ رحیم اللہ جیسے بے ضررانسان جو صرف اللہ کے گھر کی خدمت اور حضور? پر اپنی محبت نچھاور کرتا تھا ایسے بے ضرر انسان کو کوء کیوں گولی مارے گا جس پر اس نے کہا کے میری بات کا یقین نہیں کرو اور ٹی وی کھول کر دیکھو بھاء کی بات پر جب میں نے ٹی وی کے مختلف چینلز دکھے تو رحیم اللہ کی تصویر کے ساتھ اسکی شہادت کی خبریں آرہی تھی مقتول رحیم اللہ کے بھاء جمیل اللہ نے مزید کہا کہ اب تک علاقاء پولیس مستعدی سے اپنا کام کررہی ہے لیکن تاحال ملزمان کی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی جبکہ مقتول کے دیگر لواحقین نے نگراں وزیراعلی سندھ اور آء جی سندھ مطالبہ کیا ہے کہ مقتول حافظ رحیم اللہ جیسے بے ضرر انسان کے قاتلوں کو فوری گرفتار کیا جائے تاکہ ہمیں بھی پتہ چلے کہ قاتلوں نے کس جرم کی پاداش میں مولانا حافظ رحیم اللہ کو موت کی وادی میں پہنچایا اور اسکے چھے ماہ کے بیٹے کو باپ کی شفقت سے محروم کردیا مقتول کا ایسا کیا جرم تھا جس کی سزا صرف موت تھی۔