اسلام آباد: حکمران اتحاد کا حصہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے اپنے ماہرین قانون سے رائے طلب کر لی ہے کہ آیا آئندہ عام انتخابات سابقہ مردم شماری کی بنیاد پر کرائے جاسکتے ہیں جبکہ تازہ مردم شماری کا عمل تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔
رابطہ کرنے پر وفاقی وزیر اور ایم کیو ایم کے رہنما سید فیصل علی سبزواری نے دی نیوز کو بتایا کہ متحدہ کا ہمیشہ یہی موقف رہا ہے کہ انتخابات آبادی کی تازہ ترین گنتی کی بنیاد پر ہونا چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ نئی مردم شماری کا عمل مکمل ہو چکا ہے تو ایسی صورت میں ایم کیو ایم نے اپنے ماہرین قانون سے رائے مانگ لی ہے کہ عام انتخابات 2017 کی مردم شماری کی بنیاد پر ہو سکتے ہیں یا نہیں۔
اگر حکومت نئی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کرانے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کیلئے حلقوں کی حد بندی کرانا آئینی اور قانونی لحاظ سے ضروری ہو جائے گا۔ انتخابی حلقوں کی حد بندی میں کچھ مہینے لگتے ہیں اور یہ کام الیکشن کمیشن آف پاکستان کرتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں نون لیگ کے رہنمائوں کو نئی مردم شماری کی بنیاد پر اگلے عام انتخابات کے بارے میں بات کرتے بھی سنا جا چکا ہے۔ رواں سال جنوری میں نون لیگ کے رہنما اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے اصرار کیا تھا کہ ملک میں عام انتخابات مردم شماری اور اس کے بعد حلقہ بندیوں کے بعد ہی ممکن ہیں۔
میڈیا میں احسن اقبال کے حوالے سے بیان سامنے آیا تھا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے خود اپریل 2021 میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ نئے انتخابات مردم شماری کے عمل کے بعد ہی ہوں گے۔
رواں سال جنوری میں مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورو میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک کے افتتاح کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا تھا کہ مردم شماری کے نتائج 30 اپریل تک جاری کر دیے جائیں گے، جس کے بعد الیکشن کمیشن حد بندی کا کام شروع کر دے گا۔ یہ کام مکمل ہونے میں چار ماہ لگیں گے۔
احسن اقبال کی توقع کے برعکس مردم شماری کا نتیجہ تاحال جاری نہیں ہوا جس کے باعث مردم شماری کے درست ہونے کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اب نون لیگ اور پیپلز پارٹی رواں سال اکتوبر یا نومبر میں عام انتخابات کے انعقاد کی باتیں کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ اگلے ماہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور اکتوبر یا نومبر میں ملک میں عام انتخابات ہوں گے۔
میڈیا اور سیاسی حلقوں میں آئندہ عام انتخابات میں تاخیر کے امکانات اور تحفظات کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ اگر نئی مردم شماری کے نتائج تیار کر دیے جاتے ہیں یا یہ نتائج اپنی تکمیل کے قریب پہنچ چکے ہیں تو ایسی صورت میں عام انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
دی نیوز کے صحافی ممتاز علوی کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا ملک کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری اس سال مارچ میں شروع ہوئی تھی لیکن اس کے نتائج کے اجراء کی سرکاری تاریخ کے متعلق حالات غیر واضح ہیں۔ رپورٹ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایک سینئر عہدیدار کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ اگر آئندہ الیکشن ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق ہونے والی حد بندیوں کے مطابق کرائے جانا ہیں تو ایسی صورت میں انتخابات کے بروقت انعقاد یعنی اکتوبر کے پہلے ہفتے میں اور اکتوبر کی 12 تاریخ سے قبل الیکشن کا امکان نہیں۔
رپورٹ کے مطابق حد بندی کی مشق میں چار ماہ کا عرصہ درکار ہے اور اگر اس وقت کو کم از کم تین ماہ تک کھینچ کر کام مکمل کیا جائے تو بھی نئی حد بندی کی بنیاد پر انتخابات کے انعقاد کے امکانات بہت کم ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 51 (3) کے مطابق، قومی اسمبلی کی نشستیں ہر صوبے اور وفاقی علاقے کو آبادی کی بنیاد پر مختص کی جاتی ہیں اور یہ تعین آخری مردم شماری کے نتائج دیکھ کر کیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ ایسے حالات میں اور جیسا کہ معاملات نظر آرہے ہیں، کمیشن کے پاس گزشتہ حد بندی کی بنیاد پر آئندہ عام انتخابات کرانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔