اسلام آباد افغانستان اور عراق میں امریکی سفیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دینے والے افغان نژاد امریکی سفارتکار زلمے خلیل زاد جو امریکی مفادات کے تحفظ کی نگرانی کے حوالے سے ایک متنازعہ پس منظر رکھتے ہیں کچھ عرصہ قبل انہوں نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی حمایت میں تسلسل کے ساتھ بیانات دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا جس پر پاکستان کی وزارت خارجہ نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ان کے بیانات کو پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا البتہ ان کی حیثیت اور بیانات کو غیراہم قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان کی حکومت کو ان کی تجاویز کی ضرورت نہیں پاکستان کیلئے کیا بہتر ہے یہ پاکستان کی حکومت خوب سمجھتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان اور ملک کی کم وبیش تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے بھی ان کی حیثیت اور بیانات کو غیراہم قرار دیا تھا۔
زلمے خلیل زاد جن کے بارے میں پاکستان کی سیاسی صورتحال کے حوالے سے ان کے بیانات کے تناظر میں یہ تاثر خاصا گہرا ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی حمایت میں پاکستان کے داخلی امور میں مداخلت کر رہے ہیں۔
تاہم اس مرتبہ زلمے خلیل زاد کے ردعمل کے مقابل سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ہیں جن کو اپنے ردعمل میں زلمے خلیل زاد نے ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔
یاد رہے کہ تین روز قبل جمعے کو جیو ٹی وی پر پیش کئے جانے والے حالات حاضرہ کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ کے سینئر میزبان حامد میر کو دیئے گئے انٹرویو میں آصف علی زرداری نے زلمے خلیل زاد کو ایک ایجنٹ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں کسی لابی فرم نے ہائر کیا ہے جس کا جواب زلمے خلیل زاد نے اپنے ایک ٹویٹ میں دیتے ہوئے کہا کہ ۔ میں نہ تو کسی شخص یا ملک کیلئے لابی کرتا ہوں اور نہ ہی کسی کا ایجنٹ ہوں اور میں یہ جواب پاکستان کے ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کو دے رہا ہوں۔
زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان کے بحران پر تشویش کا اظہار کیا جو بدقسمتی سے شدت اختیار کر رہا ہے اور تجویز دی کہ اس صورتحال میں کیا کرنا چاہئے۔ ’مسٹر 10 پرسنٹ کو ملک کو سب سے پہلے رکھنا چاہئے اور بی بی کی سیاسی وراثت کا احترام کرنا چاہئے تاکہ ایسی تباہی کو روکا جا سکے جو 220 ملین افراد کو نقصان دے گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’زرداری جیسے دیگر کئی افراد کے برعکس پاکستانی عوام بیرون ملک پرتعیش گھروں کے مالک نہیں جہاں وہ بھاگ سکتے ہیں۔
ٹوئٹر بیان میں زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور ملک کے سیاسی راہنماؤں کو قانون کی حکمرانی کا عہد کرنا چاہئے اور سپریم کورٹ کو تقسیم نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کے فیصلوں پر عملدرآمد کرنا چاہیے۔
زلمے خلیل زاد نے اپنے ٹویٹ میں دیئے جانے والے ردعمل میں کہیں بھی آصف علی زرداری کا نام نہیں لیا اور انہیں ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کہہ کر ہی ان کا حوالہ دیا۔ جس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنماؤں کا شدید ردعمل سامنے آرہا ہے اور سوشل میڈیا پر بھی زلمے خلیل زاد کو پیپلز پارٹی کے راہنما اور کارکن انہیں آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔
تاہم یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ ایک زمانے میں جب زلمے خلیل زاد 2007-09 اقوام متحدہ میں امریکی کی جانب سے سفیر کی حیثیت سے تعینات تھے تو آصف علی زرداری اور زلمے خلیل زاد کے درمیان خوشگوار رابطے تھے لیکن یہ مسلسل رابطے اور ملاقاتیں امریکی حکام کی نظر میں آگئے اور زلمے خلیل زاد کو آصف زرداری کے ساتھ خفیہ رابطے کرنے پر بش انتظامیہ کی جانب سے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اقوام متحدہ میں تعینات امریکی سفیر کی حیثیت سے زلمے خلیل زاد نے جو رابطے کئے وہ اس کے مجاز نہیں تھے۔
امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کی اس وقت کی اشاعت کے مطابق اقوام متحدہ میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران آصف علی زرداری نے ان سے مسلسل رابطے رکھے اور دونوں راہنماؤں کے درمیان اگلے ہفتے دوبئی میں ملاقات کا پروگرام بھی طے پا گیا تھا جسے اس وقت کے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری سٹیٹ برائے جنوبی ایشیا رچرڈ باؤچر کو پتہ چلنے کے بعد منسوخ کردیا گیا۔
اخبار کے مطابق رچرڈ باؤچر کو خود آصف علی زرداری نے ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ زلمے خلیل زاد کی طرف سے انہیں مسلسل ہدایات اور مدد مل رہی ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق رچرڈ باؤچر نے 18 اگست 2008 کو زلمے خلیل زاد کو لکھے گئے خط میں سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا جب امریکا نے پاکستان کی سیاست اور دوسرے معاملات میں مداخلت نہ کرنے اور سیاسی پارٹیوں کے ساتھ محدود تعلقات رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو ایسے میں آپ کس قسم کی ہدایات اور امداد فراہم کر رہے ہیں؟۔ کیا آپ یہ سمجھنے میں میری مدد کریں گے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟۔
اخبار کے مطابق آصف زرداری کے ساتھ اس قسم کے رابطوں کے انکشاف کے بعد امریکہ میں یہ تاثر جنم لے رہا ہے کہ زلمے خلیل زاد افغانستان میں بعض امور کیلئے ذاتی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
پاکستان کے پہلے ’’مرد اول اور مرد آہن‘‘ کو ’’ٹین پرسنٹ ‘‘ کا نام پاکستان میں کس نے دیا تھا؟ اس بارے میں متضاد تذکرے ہوتے رہتے ہیں لیکن واضح رہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو سے شادی سے قبل آصف علی زرداری پر مالی کرپشن کی نوعیت کا کوئی مقدمہ منظرعام پر نہیں آیا تھا ان کی ذات پر کرپشن کے مقدمات کا آغاز محترمہ بینظیر بھٹو سے شادی کے بعد ہوا۔
محترمہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں آصف علی زرداری نے جب سیاسی رول بھی ادا کرنا شروع کیا تو ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ مختلف سودوں میں کمیشن لے رہے ہیں اور اہم منفعت بخش حکومتی عہدوں کے عوض خطیر رقوم حاصل کرتے ہیں اور اسی حوالے سے ان کے مخالفین نے انہیں ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کا نام دیا۔
گو کہ آصف زرداری نے ان الزامات پر قائم کئے جانے والے مقدمات کے نتیجے میں کم وبیش گیارہ سال اسیری کی صعوبتیں بھی برداشت کیں لیکن ان پر کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہوسکا اور آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے راہنما اس کی تمام ذمہ داری اپنے مخالفین پر ڈالتے رہے۔