انتخابات 8 ستمبر یا 8 اگست کیوں نہیں؟ لگتا ہے الیکشن کمیشن الیکشن کا مزید التوا بھی کرسکتا ہے، عدالت کو پکی بات چاہیے،چیف جسٹس
’20 سال سے ملک میں دہشتگردی کا مسئلہ ہے، اس کے باوجود ملک میں انتخابات ہوتے رہے ہیں۔ 90 کی دہائی میں تین دفعہ الیکشن ہوئے،جہاں زیادہ مسئلہ ہے وہ ملتوی بھی کیے جاسکتے ہیں، ریمارکس
گورنر اور صدر تاریخ دے دیں تو آپ کیسے تبدیل کرسکتے ہیں ، شیڈول اور تاریخ کو مکس نہ کریں تاریخ تبدیل نہیں ہوسکتی، آپ کو کس کی گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔جسٹس اعجازالاحسن
ہمارا فیصلہ اکثریتی ہے ، ہمارے چیمبرز میں جو کچھ ہوا یہاں وہ زیربحث نہیں آنا چاہیے، دونوں ججز کا احترام ہے مگر اقلیتی فیصلہ ججوں کے اکثریتی فیصلے پر غالب نہیں آسکتا، جسٹس منیب، سماعت آج تک ملتوی
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف پی ٹی آئی و دیگر کی درخواستوں پر سماعت ہوئی، فریقین کی جانب سے تفصیلی دلائل دیئے گئے، عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ،جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ سماعت کررہاہے۔مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور جے یوآئی ف نے کیس میں پارٹی بننے کی متفرق درخواست دائر کردی ، پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جسٹس جمال کے ریمارکس کے بعد فل کورٹ بنائی جائے۔جسٹس جمال نے کہا کہ فل کورٹ کیوں ؟ وہی 7 ججز بنچ میں بیٹھنے چاہئیں ، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پہلے فیصلہ کریں کہ 4/ 3 کا یا 3/2 کا فیصلہ تھا، ساری قوم ابہام میں ہے۔دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے انتظامی مسائل کو اندرونی معاملہ کہا تھا، میں اپنے اختلافی نوٹ پر قائم ہوں، انتخابات کیس پر ازخود نوٹس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ چار تین سے ہے، سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے نے ازخود نوٹس کو مسترد کیا تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ صدر نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیسے کر دیا، الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے کیسے مشاورت کی، سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز کے مطابق انتخابات کا حکم نہیں دیا گیا ، سپریم کورٹ کا آرڈر آف دا کورٹ چار ججز کا فیصلہ ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے قانونی رائے لیے بغیر تین ججوں کے اکثریتی فیصلے پر عمل کیا پانچ جج عدالت میں بیٹھے سن کر فیصلہ کریں اور دو کہیں کہ ہمارا فیصلہ اکثریتی فیصلہ ہے ، ہمارے چیمبرز میں جو کچھ ہوا یہاں وہ زیربحث نہیں آنا چاہیے، دونوں ججز کا احترام ہے مگر اقلیتی فیصلہ اکثریتی فیصلے پر غالب نہیں آسکتا، قانون واضح ہے کہ اقلیتی فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، جسٹس منصور اور جسٹس جمال خان کا فیصلہ اقلیتی ہے چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کہتا ہے صاف اور شفاف انتخابات ہونے چاہیے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہمیں لگا سپریم کورٹ کا یکم مارچ کا تین دو کا فیصلہ درست تھا، ہم نے سپریم کورٹ کا حکم ماننے کے بعد مشاورت شروع کی۔ ۔جسٹس منیب نے ریمارکس دہے کہ، اگر اکتوبر میں الیکشن کروانا تھا تو صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں دی‘۔جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ جس دن سپریم کورٹ نے انتخابات کا حکم دیا اس دن بھی تھا، فروری سے اپریل تک سیکورٹی فراہمی سے معذرت کی گئی ، سیکورٹی فورسز مردم ش±ماری میں بھی مصروف ہیں، وزارت خزانہ نے الیکشن کے لیے 20 ارب روپے دینا ناممکن قرار دیا، خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے بہت خدشات ہیں، صدر کو کے پی میں دہشت گردی کی یہ حقائق نہیں بتائے گئے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو آپ نے بہت غلط کیا کہ اتنی حساس معلومات صدر کو نہیں بتائی، صدر نے آپ کے مشورے سے تاریخ دی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ ’20 سال سے ملک میں دہشتگردی کا مسئلہ ہے، اس کے باوجود ملک میں انتخابات ہوتے رہے ہیں۔ 90 کی دہائی میں تین دفعہ الیکشن ہوئے۔۔‘انہوں نے کہا کہ 58/2 بی کے ہوتے ہوئے ہر تین سال بعد اسمبلی توڑ دی جاتی تھی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جہاں مسئلہ زیادہ ہے اس ضلع میں انتخابات موخر بھی ہوسکتے ہیں، 8 اکتوبر کی تاریخ پہلے سے مقرر کی گئی، 8 اکتوبر کو کونسا جادو ہو جائے گا جو سب ٹھیک ہو جائے گا۔اس پر وکیل ای سی پی نے کہا کہ 8 اکتوبر کی تاریخ عبوری جائزے کے بعد دی۔چیف جسٹس نے کہا کہ عبوری جائزے کا مطلب ہے کہ انتخابات مزید تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں، عدالت کو پکی بات چاہیے۔جسٹس منیب اختر نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ آپ اپنی آئینی زمہ داری سے بھاگ رہے ہیں ، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم اپنی آئینی زمہ داری سے نہیں بھاگ رہیں ہیں، الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیا اور اداروں کے عدم تعاون پر پورا شیڈول منسوخ کر دیا۔۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ گورنر اور صدر تاریخ دے دیں تو آپ کیسے تبدیل کرسکتے ہیں آپ شیڈول اور تاریخ کو مکس نہ کریں تاریخ تبدیل نہیں ہوسکتی، آپ کو کس کی گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔بعد ازاں چیف جسٹس نے انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔