غزہ میں قتل و غارت کی تمام حدیں پار ہوگئیں؛ سربراہ اقوام متحدہ کا افتتاحی خطاب

غزہ سے متعلق عالمی عدالتوں کے فیصلوں کی بھی پاسداری نہیں کی گئی، انتونیو گوتریس

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس نیویارک میں شروع ہو گیا جس میں سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے دنیا کے بڑھتے ہوئے بحرانوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ 80 سال پہلے درجنوں ممالک نے دنیا میں امن کے لیے اقوام متحدہ کو تشکیل دیا تھا۔

انتونیو گوتریس نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ دنیا میں قیام امن اور انسانیت کی بقا کے لیے ایک موثر اور اجتماعی حکمت عملی کے طور پر کام کرتی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ وہ اصول جن پر اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی گئی تھی آج محاصرے میں ہیں۔ امن اور ترقی کے ستون بے حسی، عدم مساوات اور سزا سے استثنیٰ کے بوجھ تلے لرز رہے ہیں۔

انتونیو گوتریس نے مزید کہا کہ دنیا ایک ایسے دور میں داخل ہو چکی ہے جو غیر ذمے دارانہ خلفشار اور مسلسل انسانی تکالیف سے عبارت ہے۔

سیکریٹری جنرل نے رکن ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح کی دنیا تعمیر کرنا چاہتے ہیں؟ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا، کیونکہ ہمارے سامنے انسانی المیوں اور ماحولیاتی خطرات کی گھنٹیاں مسلسل بج رہی ہیں۔

سربراہ اقوام متحدہ نے مزید کہا کہ خودمختار ممالک پر حملے کیے جا رہے ہیں، بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے، سچ کو دبایا جا رہا ہے، اور شہروں کے ملبے سے دھواں اٹھ رہا ہے۔

فلسطین کی صورت حال کا خصوصی طور پر زکر کرتے ہوئے انتونیو گوتریس نے کہا کہ غزہ میں ہولناکیاں جاری ہیں اور وہاں قتل و غارت کا دائرہ تمام حدیں پار کر چکا ہے۔

انھوں نے غزہ کی صورت حال کو بدترین قرار دیتے ہوئے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ غزہ پر عالمی عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

انتونیو گوتریس نے کہا کہ حماس کے 7 اکتوبر کے حملوں کے جواب میں غزہ کے معصوم  عوام کو اجتماعی سزا دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

سربراہ اقوام متحدہ نے مزید کہا کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی اور فوری طور پر یرغمالیوں کی رہائی چاہتے ہیں۔

انتونیو گوتریس نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کی صلاحیتوں کو "کمزور” کرنے کی منظم کوششیں کی جاری ہیں جس سے عالمی امن اور ترقی کے اہداف شدید خطرے سے دوچار ہیں۔

گوتریس نے سلامتی کونسل کی موجودہ حیثیت پر بھی سوال اٹھایا۔ انہوں نے بالواسطہ طور پر امریکا اور روس کی جانب سے بار بار ویٹو پاور کے استعمال کو تنقید کا نشانہ بنایا جس نے غزہ اور یوکرین کی جنگوں میں عالمی ادارے کے کردار کو محدود کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ یہ اجلاس ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ نے ایک بار پھر اقوام متحدہ کے لیے فنڈنگ میں کٹوتی کر دی ہے۔

واضح رہے کہ امریکا اقوام متحدہ کا سب سے بڑا مالی معاون ہے اور فنڈز میں کمی ادارے کی کارکردگی پر براہِ راست اثر ڈال رہی ہے۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*