دھمکی آمیز خط، واہ عمران خان واہ!

وزیراعظم عمران خان نے کسی غیرملکی طاقت کا مبینہ دھمکی آمیز خط جلسے میں لہرا کر اور پچھلے چند روز میں اس کے مندرجات سامنے لاکر قوم کو بڑا سرپرائز دینے کی کوشش کی ہے۔

عین تحریک عدم اعتماد کے موقع پر یہ خط لہرایا جانا معنی خیز تو ہے ہی لیکن خاص توجہ کا طالب بھی کیونکہ اس سے میں اور آپ بھی حب الوطن یا غدار کی صف میں کھڑے کردیے گئے ہیں۔

امریکا کی جانب سے اس مبینہ خط کےبارے میں لاعلمی کااظہار کیاجاچکا ہے، فرض کرلیں کہ یہ خط اس طاقتور ملک میں تعینات سفیر نے بھیجا ہے جس کے لیڈر ہماری خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہوتے رہے ہیں، مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم نے خارجہ پالیسی میں ایسی کیا تبدیلیاں کی ہیں جن کی بنیاد پر اس طاقت ور ملک نے عمران خان کو ہٹانے کے لیے دھمکی آمیز رویہ اپنایا ہے؟

پہلے پاک روس پالیسی پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے صدر پیوٹن سے ماسکو میں اس روز ملاقات کی جب روس یوکرین کیخلاف جنگ کا آغاز کررہا تھا،امریکا اور یورپ، روس کا ناطقہ بند کرنے کے لیے پر تول رہے تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان نے یوکرین جنگ میں روس سے تعاون نہیں کیا۔

 اقوام متحدہ میں روس کیخلاف قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا مطلب یہ نہیں کہ عمران حکومت روس کی اتحادی بن گئی ہے۔پاکستان نے یوکرین سے آنیوالے پناہ گزینوں کی مدد کے لیے امدادی سامان پولینڈ بھیجا ہے، نقل مکانی کرنیوالے ایک کروڑ یوکرینی شہریوں میں سے کئی لاکھ روس بھی منتقل ہوئے ہیں انکی امداد نہیں کی۔ گیس پائپ لائن منصوبہ بھی باتوں ، اعتراضات اور مذاکرات سے آگے نہیں بڑھ سکا۔

اب زرا چین پالیسی کو دیکھ لیتے ہیں، یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سی پیک جسے ہم گیم چینجر کہتے رہے ہیں، اس رفتار سے نہیں چل رہا جس کی چین کو خواہش ہے۔ منصوبوں کی تکمیل کا اندازہ صرف اس بات سے لگالیں کہ نوازشریف دورحکومت میں احسن اقبال صاحب نے کہا تھا کہ سی پیک کا مغربی روٹ سن دوہزار سولہ تک مکمل کرلیا جائے گا۔ 2022ء میں حال یہ ہے کہ مغربی روٹ کے چار میں سے صرف دو پراجیکٹس مکمل کیے گئے ہیں۔

مسلم ممالک پر نظر ڈالیں تو عمران دور حکومت میں سعودی عرب سے تعلقات کی نوعیت بدلی ہے نہ ہم نے ایران کو گلے لگا کر وہ گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کیا ہے جو ایران ہماری سرحد تک لے آیا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے تہران کے دورے پر دورے کیےمگر باہمی تجارت کے لیے بنکنگ چینل نہ کھولا۔

جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو پاکستان کی عشروں سے ایک خاص افغان پالیسی رہی ہے، اس پالیسی پر مختلف حکومتوں نے عشروں مغرب کی تنقید برداشت کی تب کہیں جاکرعمران دور میں ثمر ملا۔

 اس میں شک نہیں کہ عمران خان نے افغان جنگ کے خاتمے پر امریکا کو اڈے دینے سے ‘ایبسولیوٹلی ناٹ’ کہہ کر انکار کیا تھا، ممکن ہے یوکرین تنازعہ بڑھنے کی صورت میں امریکا کو ان اڈوں کی نسبتا زیادہ ضرورت بھی پڑے مگر کیا یہ چیزاس ملک کو اتنی ناگوار لگی کہ وہ اپوزیشن کے زریعے لنکا ڈھانے نکل آیا۔

ہاں یہ درست ہے کہ عمران خان مغربی ممالک پر طنز کے تیرچلاتے رہے ہیں۔ جذبات میں وہ بعض ایسے الفاظ بھی استعمال کرگئے جن سے پبلک میں گریز بہتر تھا۔ جن ممالک سے تجارت کے لیے جوتے گھسے گئے ہوں، انکا مجمع میں تضحیک آمیز الفاظ سے تمسخر اڑانا زیب نہیں دیتا۔ آخر ہم کس سطح پر توقع کریں کہ انکار کے لیے بھی بردباری کا مظاہرہ کیا جائے گا؟

وزیراعظم نے اس خط کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ معاملہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنا ہوا ہے۔ یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ عمران خان نے پچھلی پالیسیوں کو بدل کر کوئی آزاد منش پرندہ دیکھ لیا تھا اوراس جیسی ہی پالیسی بنالی تھی جس پر ناراضی مول لی ہے، لیکن زمینی صورتحال اس کے برعکس ہے۔

امریکا جیسے ملک میں جہاں نظریاتی لحاظ سے دو یکسر مختلف سیاسی جماعتیں ہیں، خارجہ پالیسی کے لحاظ سے دیکھیں تو صدر پیوٹن کی یہ بات سچ نظرآتی ہے کہ امریکا میں صدر تبدیل ہوتا ہے،خارجہ پالیسی یکساں رہتی ہے۔

پاکستان ہو یا امریکا خارجہ پالیسی ایک رہنی بھی چاہیے کیونکہ یہ انتہائی دور اندیش اور زیرک سفارتکار، قومی سلامتی امور کے ماہر،سکیورٹی ادارے اور منجھے ہوئے سیاستدان بناتے ہیں، خارجہ پالیسی میں شارٹ ٹرم سے زیادہ لانگ ٹرم مقاصد ہوتے ہیں جنہیں حاصل کرنے کے لیے پالیسیوں کا تسلسل درکار ہوتا ہے۔ حکمت عملی تبدیل کی جاسکتی ہے،ہر بار منزل نہیں بدلی جاتی۔

جہاں تک دھمکی آمیز خط کا تعلق ہےیہ کس نے لکھا؟ کن مقاصد کے تحت بھیجا یہ اپنی جگہ، پاکستان کو اسکے خارجہ ہی نہیں، داخلہ امور پربھی دھمکیاں ملنے کا سلسلہ نیا نہیں۔ 

سابق آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں امریکا نے ‘ہمارے ساتھ یا دشمن کے ساتھ’ جیسی دھمکی دی تھی جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ‘ہولناک مثال’ بنانے کی باتیں سامنے آئی تھیں۔ لیکن جو دعوی عمران خان نے کیا ہےیہ بہت مختلف اور کہیں زیادہ حساس ہے۔

دھمکی آمیز خط کو اگر حقیقت تسلیم کر لیا جائے تو یہ وزیراعظم کےلیے حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ ہے اور نہ صرف اپوزیشن بلکہ اہم اداروں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان؟ اس خط کا مطلب یہ ہے کہ اگر عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتمادناکام ہوگئی تو پاکستان آزاد خارجہ پالیسی پرعمل جاری رکھے گا جبکہ یہ تحریک کامیاب ہوگئی تو اپوزیشن برسراقتدار آکر ملک کو غلام بنادے گی۔

وزیراعظم صاحب! پاکستان بنانا ریپبلک نہیں،یہاں موجودہ اپوزیشن میں شامل جماعتیں پہلی بار اقتدار میں نہیں آرہیں، آپ اس خط کے زریعے یہ تاثر بھی دے رہے ہیں کہ جب یہ جماعتیں اقتدار میں تھیں تو ممکن ہے یہ اسی ملک کی آلہ کاربنی رہی ہوں گی تب ہی تو وہ ملک تحریک عدم اعتماد کامیاب بنا کر انہیں اقتدار میں لانا چاہتا ہے۔

شخصیات کوغداری کے سرٹیفیکٹ تو ہمارے ہاں بنٹتے ہی تھے، وزیراعظم صاحب یہ پہلی بار ہوا ہے کہ آپ نے اپنے، اپنی پارٹی اوربچے کچھے اتحادیوں کےسوا پورے ملک کو غداری کے سرٹیفیکیٹ سے نواز دیا ہے، واہ عمران خان صاحب واہ!

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*