‏‎ایس بی سی اے کی اتھارٹی میں خودساختہ تبدیلیاں، اپنی ساکھ کھو بیٹھی

عبدالرشید سولنگی کے نان ٹیکنیکل ہونےکی وجہ سے سندھ ہائی کورٹ نے ڈائریکٹر جنرل ایس بی سی اے کو نقشہ جات کی منظوری دینے سے روک دیا تھا

نقشہ جات کی منظوری کےلیے اتھارٹی کی تشکیل کا حکم کے بعد حکومت نے اتھارٹی قائم کی، بینش شبیر کی ریٹائرمنٹ کے بعد سیکریٹری کا عہدہ خالی ہوگیا

سامت علی خان کی ایمانداری سے خائف ڈی جی عبدالرشید سولنگی نے انہیں سیکریٹری تعینات نہیں کیا کہ وہ نقشوں کی منظوری میں رکاوٹ ڈالیں گے

اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے گریڈ 19 کے ڈائریکٹر علی مہدی کاظمی کو ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل رینجرز کا چارج دیا گیا، سیکریٹری کے طور پر بھی کام لیا گیا

کراچی ( رپورٹ: شاہد شیخ) لوکل گورنمنٹ اینڈ ہاو¿سنگ ٹاو¿ن پلاننگ ڈیپارٹمنٹ حکومت سندھ کی جانب سے 11 ستمبر 2024کو بذریعہ نوٹیفکیشن تشکیل دی جانے والی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی سات رکنی اتھارٹی خود ساختہ تبدیلیوں کے باعث اپنی ساکھ کھوبیٹھی، عبدالرشید سولنگی کے نان ٹیکنیکل ہونے کی وجہ سے سندھ ہائی کورٹ نے ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو نقشہ جات کی منظوری دینے سے روک دیا گیا تھا اور حکومت سندھ کو حکم دیا گیا تھا کہ اتھارٹی کی ٹیکنیکل اتھارٹی تشکیل دی جائے تاکہ وہ نقشہ جات کی منظوری دے سکے، جس کے بعد حکومت سندھ کی جانب سے سات رکنی اتھارٹی کی تشکیل بذریعہ نوٹیفکیشن کی گئی تھی۔ جس کے تحت ڈائریکٹر جنرل ایس بی سی اے کو چیئرمین، اسپیشل سیکریٹری ہاو¿سنگ اینڈ ٹاو¿ن پلاننگ ونگ کو ممبر، ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پلاننگ ایس بی سی اے کو سیکریٹری / ممبر، ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل رینجرز ایس بی سی اے کو ممبر، ڈائریکٹر آرکیٹکیچر اینڈ پلاننگ ایس بی سی اے کو ممبر، ڈائریکٹر اسٹرکچر ایس بی سی اے کو ممبر اور سینئر ڈائریکٹر سندھ ماسٹر پلان اتھارٹی کے نامزد کردہ افسر کو ممبر کے طور پر تعینات کیا گیا تھا جبکہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل بینش شبیر کی ریٹائرمنٹ کے بعد سات رکنی اتھارٹی کے سیکریٹری کا عہدہ خالی ہوگیا تھا،جس کی وجہ سے اتھارٹی کا اجلاس منعقد نہیں کیا جاسکتا تھاجبکہ اتھارٹی ہذا میں صرف ایک ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سامت علی خان بچے تھے، لیکن ان کی ایمانداری سے خائف سات رکنی اتھارٹی اور خاص طور پر ڈی جی عبدالرشید سولنگی انہیں سیکریٹری تعینات نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ اپنی شہرت کی مناسبت سے منظور شدہ نقشہ جات کی دوبارہ اسکرونٹی کرکے مذکورہ اتھارٹی کے لئے مصیبت کھڑی کرسکتے تھے اور نئے نقشہ جات کی منظوری کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے، جس سے کروڑوں روپے ہفتے کا دھندا ختم ہوسکتا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے گریڈ 19 کے ڈائریکٹر علی مہدی کاظمی کو ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل رینجرز کا چارج دیا گیا اور بعدازاں انہیں سات رکنی اتھارٹی میں شامل کرکے سیکریٹری کے طور پر کام لینا شروع کردیا گیا حالانکہ علی مہدی کاظمی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل نہیں ہیں ان کے پاس صرف ADG کا چارج ہے کیونکہ ADG کا عہدہ گریڈ۔20 کا ہوتا ہے اس لئے ٹیکنیکلی ابھی بھی سات رکنی اتھارٹی میں سیکریٹری کا عہدہ خالی پڑاہے جس کے بغیر یہ اتھارٹی مکمل نہیں ہوسکتی اس کے علاوہ حکومت سندھ نے سات رکنی اتھارٹی تشکیل دی تھی جبکہ اسے بغیر حکام بالاکی اجازت کے آٹھ رکنی کردیا گیا ہے۔ حکومت سندھ نے ایک ڈائریکٹر آرکیٹکچر اینڈ پلاننگ کو اتھارٹی کا ممبر بنایا تھا لیکن خود ساختہ تبدیلی کی وجہ سے دو ڈائریکٹرز آرکیٹکےچر اینڈ پلاننگ کو اتھارٹی کا ممبر بنادیا گیا اور ڈائریکٹر ایڈمن کو بھی سات رکنی اتھارٹی کا ممبر بنادیا گیا جس کی حکومت سندھ نے اجازت نہیں دی تھی حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ڈائریکٹر جنرل بطور چیئرمین اس اتھارٹی کے آٹھویں ممبر ہیں جبکہ منٹس آف دی میٹنگ میں سات رکنی اتھارٹی کے ممبران اور سیکریٹری کے نام دیئے جاتے ہیں اور ڈی جی کا بطور چیئرمین نام نہیں دیا جاتا جو کہ حکومت سندھ کے معزز عدالت کے حکم پر جاری کردہ اس سلسلے کے نوٹیفکیشن کے بر خلاف اور غیر قانونی ہے اتھارٹی کی سات بلکہ آٹھ رکنی اتھارٹی غیر قانونی ہونے کی وجہ سے بینش شبیر کے اکتوبر میں ریٹائر ہونے کے بعد منظور کئے گئے سینکڑوں نقشہ جات پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سات رکنی اتھارٹی کی تشکیل کے بعد سے جتنے بھی نقشہ جات کی منظوری دی گئی اس کے لئے نقشہ جات کی فائلوں پر سات رکنی اتھارٹی کے دستخط کروانے کی بجائے پلاٹوں کی فہرست پر سات رکنی اتھارٹی کے دستخط کروائے جاتے ہیں جو کہ منٹس آف دی میٹنگ کے طور پر ظاہر کردیئے جاتے ہیں سات رکنی اتھارٹی کی تشکیل کے بعد ڈی جی کی ہدایت پر اتھارٹی کی جانب سے منظور کئے جانے والے نقشہ جات کی پریس ریلیز جاری کی جاتی تھی لیکن پکڑے جانے کے خوف سے پبلک ریلیشنز سیکشن ایس بی سی اے کو پریس ریلیرز جاری کرنے سے روک دیا گیا تاکہ اربوں روپے ماہانہ کے دھندے کا پردہ چاک ہونے سے بچایا جاسکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈی جی عبدالرشید سولنگی نے چالاکی سے اپنا نام سات رکنی اتھارٹی سے باہر نکال دیا ہے اور سات رکنی اتھارٹی کے ممبر کی تعداد برقرار رکھنے کے لئے دو ڈائریکٹرز آرکیٹکیچر اینڈ پلاننگ کے ساتھ ڈائریکٹر ایڈمن کا نام بلاوجہ سات رکنی اتھارٹی میں شامل کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سات رکنی اتھارٹی کی جانب سے کروڑوں روپے مبینہ رشوت کے عوض دی جانے والی نقشہ جات کی منظوری کا مستقبل میں بھانڈا پھوٹنے کے پیش نظر عبدالرشید سولنگی نے چالاکی سے اپنا نام مذکورہ اتھارٹی سے نکال لیا ہے تاکہ عنقریب متوقع تحقیقات سے بچاجاسکے اور خلاف قوانین نقشہ جات کی منظوری دینے کا الزام ٹیکنیکل افسران پر عائد کرکے جان کی خلاصی کو یقینی بنایا جاسکے، کیونکہ وہ 7 فروری 2025 کو ریٹائر ہورہے ہیں اس لئے کوئی نشان نہیں چھوڑنا چاہتے۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*