تحریر: اسد شاکر
گزشتہ روز یعنی5 نومبر کو ایک بار پھر کراچی میں غیر ملکی شہریوں پر حملہ کیا گیا ہے ، اگرچہ چینی شہریوں پر فیکٹری کے سیکورٹی گارڈ کی جانب سے کیا جانے والایہ حملہ ذاتی تنازع اور جھگڑے کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے تاہم گزشتہ واقعات کے تناظر میں اسے تشویشناک ضرور قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل بھی6 اکتوبر کو کراچی میں غیر ملکی ( چینی)انجینئرز پر حملے میں افسوسناک طور پر تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اور اس حملے میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیم کے ملوث ہونے نے سیکورٹی پر کئی سوال کھڑے کردیے، ایک ماہ کے دوران ہونے والے ان واقعات نے ایک بار پھر غیر ملکی سرمایہ کاروں کے تحفظ اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے مجموعی ماحول کے بارے میں خدشات کو اجاگر کردیاہے۔ اس امر سے انکارممکن نہیں کہ کسی بھی ملک کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے ایک محفوظ ماحول بہت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ سرمایہ کاروں کے لیے سیکورٹی اولین ترجیح ہوتی ہے اور اسی کے نتیجے میں اقتصادی ترقی میں اضافہ ہونے کے ساتھ ملکی کاروباری اداروں کو بھی فروغ ملتا ہے۔
چونکہ غیر ملکی سرمایہ کار نہ صرف آپ کے ملک میں سرمایہ بلکہ جدید ٹیکنالوجی اور انتظامی مہارت بھی لاتے ہیں، جس سے نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان کی صنعتی مسابقت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے سرمایہ کاروں کا اعتماد برقرار رکھنا بالخصوص ان کی حفاظت کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ ملک کی سیکیورٹی گورننس کو بہتر بنانے سے غیر ملکی کاروباروں کی حفاظت اور مزید سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے، جس سے پاکستان کی معیشت اور افرادی قوت کو فائدہ ہو گا۔
پاکستان میں غیر ملکیوں بالخصوص چینی باشندوں پر کیے جا نے والے حملوں کے تناظر میں چینی حکام نے بھی تشویش ظاہرکرتے ہوئے ان واقعات میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری سمیت سی پیک پروجیکٹس پر کام کرنے والے اپنے باشندوں کی سیکورٹی کا مطالبہ کیا ہے اس لحاظ سے یہ مطالبہ جائز بھی ہے کیونکہ ان پروجیکٹس اوران پر کام کرنے والے غیر ملکیوں کی سیکورٹی پرہی ان پروجیکٹس کی کامیابی کا داومدار ہے۔ سی پیک سے خائف اور پاک چین تعلقات سے خوفزدہ بیرونی عناصر تو یہاں تک خبریں پھیلا رہے ہیں کہ پاکستان میں چینی باشندوں کے غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے متعد د چینی انجینئرز نے نہ صرف پاکستان جانے سے انکار کردیا ہے بلکہ پاکستان میں سی پیک پروجیکٹس کا انتظام دیکھنے والی انتظامیہ کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھا دیئے ہیں۔ انہیں عناصر نے پاکستان کی سیاسی اورعسکری قیادت کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ سی پیک پروجیکٹس میں اقربا پروری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے غیرکوالیفائیڈ افراد کو تعینات کردیا ہے۔ اب ایسی صورتحال میں حکومت پاکستان کی یہ اولین ذمے داری ہے کہ وہ ان الزامات کی چھان بین کرکے ان کو غلط ثابت کردے۔
گزشتہ دنوں وزیرخزانہ اور نائب وزیراعظم پاکستان جناب اسحاق ڈار کا بیان سامنے آیا تھا جو انہوں نے اپنے چینی اسٹیک ہولڈرز سے ملاقات کے بعد دیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت سیکورٹی کے حوالے سے چینی حکومت اور سی پیک پروجیکٹس پر کام کرنے والے غیر ملکیوں کے تمام خدشات دور کرنے کا عزم رکھتی ہے اور اس کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھاجائے گا، ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ چونکہ سی پیک پروجیکٹ سے پاکستان کا اقتصادی استحکام وابستہ ہے اس لیے بہتر سیکیورٹی اور انتظامی اصلاحات سمیت غیر ملکی اور مقامی کارکنوں کی حفاظت کے لیے سی پیک کے حساس علاقوں بالخصوص بلوچستان میں غیر ملکیوں کی سیکیورٹی کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی انتظامیہ پر اعتماد بحال کرنے کے لیے سیاسی طور پر چلنے والی تقرریوں کے بجائے شفاف اور موثر انتظامی عمل کے ذریعے تبدیل کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ پاکستان چینی ماہرین کے ساتھ مشترکہ سیکیورٹی ٹیم بنانے پر بھی غور کر سکتا ہے، جو سی پیک کے لیے مشترکہ ذمے داری کے احساس کو فروغ دے گی اور تمام کارکنوں کی حفاظت کو ترجیح دے گی جبکہ اس سے سیکورٹی کا بوجھ صرف پاکستان پر نہیں پڑے گا۔
چینی باشندوں اور سی پیک پروجیکٹ کے حوالے سفارتی روابط کا فروغ اور اعتماد سازی بہت ضروری ہے اور اس کےلیے پاکستان اور چینی حکام کے درمیان کھلی بات چیت ،عتماد کی بحالی اور غلط فہمیوں کودور کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ سیاسی قیادت کے عوامی بیانات کے بجائے چینی خدشات کو براہ راست حل کرنے کے لیے باقاعدہ سفارتی مشاورت دونوں فریقوں کو زیادہ مو¿ثر طریقے سے تعاون کرنے کی اجازت دے دے گی کیونکہ اس امر میں دو رائے نہیں کہ سیکورٹی کے معاملات پر تعاون اور شفافیت ہی چینی اسٹیک ہولڈرز کے اعتماد کو مستحکم کرسکتا ہے۔میری رائے میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو بیرونی عناصر کی جانب سے نا اہلی کے الزامات سے نمٹنے اور میرٹ کی بنیاد پر تقرریوں کو فروغ دے کر CPEC کے منصوبوں کو چلانے میں شفافیت کا عہد کرنا چاہیے۔ جوابدہی کا مظاہرہ نہ صرف چینی سرمایہ کاروں کے ساتھ اعتماد بحال کر سکتا ہے بلکہ پاکستانی عوام اور دیگر بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز کے بھروے کو بھی استحکام فراہم کرے گا۔
سی پیک پروجیکٹ پاکستان کے لیے کتنا اہم ہے اب اس سے عام پاکستانی بھی واقف ہے اسی وجہ سے سی پیک کو پاکستان کی اقتصادی ترقی کا راستہ قرار دیا گیا ہے۔ اس پروجیکٹ کا بنیادی مقصدچین اور پاکستان کی اقتصادی راہداری کے مرکزگوادر جیسی پاکستانی بندرگاہوں کو چین کے سنکیانگ خطے سے جوڑنا ہے، جس سے ایشیا بھر میں تجارت اور توانائی کی نقل و حمل میں سہولت ہو گی۔ اقتصادی ترقی کے علاوہ، CPEC بنیادی ڈھانچے کو بڑھا کر، خصوصی اقتصادی زونز بنانے، اور صنعتی ترقی کو فروغ دے کر علاقائی استحکام لانے کا وعدہ بھی کرتا ہے۔ تاہم، یہ فوائد صرف اسی صورت میں حاصل ہوسکتے ہیں جب پاکستان اور چین دونوں مل کرسیکیورٹی اور انتظامی خدشات کو دور کرنے کے لیے پرعزم رہیں
پاکستان کے لیے سی پیک اس لیے بھی زیادہ اہم ہے کیونکہ یہ معیشت کو مستحکم کرنے، بے روزگاری کو کم کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کا ایک شاندار موقع فراہم کرتا ہے۔ چین کے لیے یہ راہداری تجارت کے لیے ایک اسٹریٹجک راستہ فراہم کرتی ہے اور غیر محفوظ سمندری چوکیوں سے بچا کر ایک محفوظ راستہ دیتی ہے۔دونوں ملکوں کے لیے اس وقت معاملہ صرف سیکورٹی کا ہے اور میری رائے میں اس مسئلے کے مشترکہ حل کے ذریعے پاکستان اور چین موجودہ چیلنجز سے نمٹ کر اپنی شراکت داری کو نہ صرف برقرار رکھ سکتے ہیں بلکہ اسے مزید مضبوط بناکر جنوبی ایشیا اور اس سے باہر کے خطوں کے لیے مشترکہ خوشحالی کے محرک کے طور پر CPEC کی مکمل صلاحیت سے بھرپور استفادہ کرسکتے ہیں۔ اس بارے میں اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ ملک بھر کے شہری بھی ملک کے اندر غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ اور معاشی استحکام کے منظر نامے کو بڑھانے کے لیے ٹھوس، موثر اقدامات کو نافذ کرنے میں تعاون کریں کیونکہ تعاون اور کھلے مذاکرات کے ذریعے ہی پاکستان ان چیلنجوں سے نمٹ سکتا ہے اور اپنی اقتصادی صلاحیت کو دنیا کے سامنے واضح کرنے کے ساتھ ساتھ ایک فعال اور خوشحال مستقبل کی منزلیں طے کر سکتا ہے۔