زندگی میں انگریزی کی جو پہلی ضخیم کتاب پڑھی تھی، اس کا نام تھا ’دی گریٹ اسکیپ‘۔ اس میں ان قیدیوں کی کہانیاں تھیں جو دنیا کی محفوظ ترین جیلوں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔
کوئی جیل کے گارڈ کا بھیس بدل کر بھاگا، کسی نے اپنے آپ کو دھوبھی کی وین میں چھپایا، ایک ذہین قیدی بستر کی چادر سے ہینگ گلائیڈر بنا کر جیل کی فصیل کے اوپر سے پرواز کر گیا۔
لیکن زیادہ تر کہانیوں میں قیدی سالہا سال تک خاموشی سے ایک سرنگ کھودتے تھے، اکثر پکڑے جاتے تھے لیکن کچھ خوش قسمت اپنی آزادی پا لیتے تھے۔ جو پکڑے جاتے تھے وہ جیل واپس آتے ہی ایک اور سرنگ کھودنے کی تیاری شروع کر دیتے تھے۔ کہانیوں کا سبق یہی تھا کہ اگر قیدی کا جذبہ سچا ہو تو دنیا کی کوئی جیل اسے فرار ہونے سے نہیں روک سکتی۔
پاکستان کے سب سے مشہور قیدی عمران خان ہیں اور کسی زمانے میں پاکستان کی سب سے سخت جیل مچھ جیل سمجھی جاتی تھی لیکن آج کل اڈیالہ ہے، جہاں پر جیلروں کو قیدی سے ہنس کر بات کرنے پر غائب کر دیا جاتا ہے اور قیدی کا جذبہ ایسا ہے کہ آپ کو ان کی سیاست سے لاکھ اختلاف ہو لیکن ان کے جذبے سے ان کے سیاسی مخالف بھی تنگ ہیں۔
جس طرح عمران خان نے پاکستان کی سیاست میں نئے انداز متعارف کرائے ہیں، اسی طرح انھوں نے اڈیالہ جیل سے فرار کا انوکھا منصوبہ سوچا ہے کہ وہ آکسفرڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا الیکشن لڑیں گے۔
سچی بات یہ ہے کہ عمران خان کے الیکشن میں اترنے سے پہلے نہ پاکستانیوں کو اور نہ زیادہ تر انگلستانیوں کو علم تھا کہ آکسفرڈ کے چانسلر کا کوئی الیکشن بھی ہوتا ہے۔
ان کے اعلان کے ساتھ ہی سب کو چانسلر کے الیکشن کا ایسے ہی پتا چل گیا، جیسے اب بچے بچے کو الیکشن فارم 45 اور الیکشن فارم 47 کے بارے میں پتا ہے۔
گوروں کے ایک قدیم ادارے کے بھولے بسرے انتخاب میں شامل ہونے کا اعلان کر کے عمران خان نے اس میں جان ڈال دی ہے۔
منصوبہ یہ نہیں کہ عمران خان اڈیالہ جیل سے سرنگ کھودنا شروع کریں گے اور ایک دن آکسفرڈ کے چانسلر کے دفتر میں نمودار ہوں گے۔ وہ رہیں گے جیل میں ہی اور جیسا کہ ان کے جان نثار سمجھتے ہیں، جیل میں رہتے ہوئے مضبوط سے مضبوط تر، مقبول سے مقبول تر ہوتے جائیں گے لیکن چانسلر کا الیکشن لڑنے سے ان کا نام مغربی دارالحکومتوں میں ایک بار پھر گونجے گا۔