ماضی کے ایس ایس پی عبداللہ چاچڑ کون تھے؟


ان پر ڈاکوؤں سے ملی بھگت کا الزام  کیوں لگا؟
اسپیشل برانچ میں اصلاحات ان کابڑا کارنامہ ہے،
ان کے تینوں ہونہار بیٹے آج اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اعلی عہدوں پر فائز ہیں اور صوبے کے ایماندار افسر سمجھے جاتے ہیں

کراچی (تحریر : آغاخالد)
وہ سندھ پولیس  کے جاسوسی کے محکمہ (اسپیشل برانچ) میں ہیڈ کانسٹیبل تھا اور میرا پڑوسی ہونے کا وہ اکثر فائدہ اٹھاتا اسے محکمہ جاتی کوئی مسلہ درپیش ہوتا تو دروازہ کھٹ کھٹا لیتا پہلے پہل میرا نام استعمال کرکے وہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا دوسری صورت میں معصوم سی صورت بناکر پیش ہوجاتا یہ نہ سمجھیں وہ معصوم صورت تھا وہ سانولی رنگت اور چچک زدہ چہرے کے ساتھ روایتی خرانٹ پولیس والا تھا جس کی حرکات سے اس کا محکمہ بھی بیزار رہتا مگر پڑوسی ہونے کے سارے حقوق اسے ازبر تھے اور میں اس کی عاجزی جو صرف میری حد تک محدود تھی کے سامنے بے بس ہوجاتا یہ غالبا 1989/90 کی بات ہے وہ مجھے اپنے ایس ایس پی کے پاس سفارش کے لئے لے گیا سکھر میں اسپیشل برانچ کی برائے نام نفری تھی ان کی ترقی کا مرحلہ شروع ہوچکا تھا مگر اس کا ریکارڈ خراب ہونے کی وجہ سے ترقی پانے والوں کی فہرست میں اس کا نام نہ تھا میں سکھر کی ایک کچی آبادی ٹکر محلہ جو ریلوے کی زمیں پر قائم تھی میں رہائش پذیر تھا یہ کچی آبادی گھنٹہ گھر کے سامنے پہاڑی سے شروع ہوکر دو کلو میٹر کے ایریا میں پھیلی ہوئی تھی اور دوسری طرف پراچہ اسپتال ریلوے اسکول سے ایوب گیٹ اور اسٹیشن روڈ کے گرد پھیلی آبادی کے عین وسط میں پہاڑی کی چوٹی پر ہمارا گھر تھا ہزاروں افراد کی رہائشی اس آبادی کے اندرون آمدو رفت کا واحد راستہ ہمارے گھر کے سامنے سے گزرتا ہوا دوسری طرف پہاڑی سے اترتا تو سامنے ان ہیڈ کانسٹیبل صاحب کا گھر تھا اس طرح نہ چاہتے ہوے بھی روزانہ سامنا ہوتا اور وہ مجھے پڑوسی کے حقوق ضرور یاد دلاتا، اس کے افسرایس ایس پی عبداللہ چاچڑ تھے ان سے میری واقفیت نہ تھی مگر اس کے اصرار پر میں نہ چاہتے ہوے بھی ان سے ملا تو ان کے اخلاق کا گرویدہ ہوگیا اسپیشل برانچ کہنے کو پولیس کی ریڑھ کی ہڈی یعنی سی آئی ڈی کا محکمہ ہے مگر یہاں اکثر افسران کی جب تقرری ہوتی ہے تو اسے سزا تصور کیاجاتا ہے اور تقرری پانے والا افسر بھی یہی سمجھتا ہے کہ اسے کھڈے لائین لگادیاگیاہے جس کی وجہ سے وہ دل جمعی سے یہاں کام نہیں کرتا بس اپنی سزاپوری ہونے کا انتظار کرتاہے مگر عبداللہ چاچڑ ایسے نہ تھے وہ اس محکمہ کو فعال کرنے کی پوری سعی کرہے تھے انہوں نے اس محکمہ کو جدید بنانے کے لئے بڑی اصلاحات تجویز کیں جن کی وجہ سے یہ محکمہ پولیس کے لیے آج ناگزیر ہے، انہوں نے میرے سفارشی ہیڈ کانسٹیبل سے سخت ناراض تھے اور اس کی فائل منگوا کر بھی دکھائی جس میں 80 فصد عوامی شکایات اس کے خلاف تھیں جنہیں دیکھ کر مجھے بڑی ندامت ہوئی مگر انہوں نے ازراہ کرم پھر بھی مجھے مایوس نہیں لوٹایا اس طرح یہ میٹنگ ہماری دوستی کی پہلی اینٹ بن گئی یوں وقتا فوقتاً ان سے ہونے والی ملاقاتوں نے ہمیں اور قریب کردیا ایک روز انہوں نے شکایتا کہا کہ آپ کا دوست فلاں انٹیلی جنس افسر مجھے بہت تنگ کرتا ہے امن و امان کے ضلعی اجلاسوں میں میرے ساتھ اس کارویہ ٹھیک نہیں ہوتا اور  انہی لوگوں کی الٹی سیدھی رپورٹس کی وجہ سے مجھے ہمیشہ سائڈ پوسٹنگ دی جاتی ہے میرے استفسار پر اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ گھوٹکی کے دو بدنام ڈاکوؤں "نادر جسکانی” اور "غلام چاچڑ” سے میرا تعلق جوڑا جاتاہے انہوں نے دکھی لہجہ میں قسم اٹھاکر کہاکہ میرا ان سے نہ صرف کوئی تعلق نہیں بلکہ میں آج تک ان سے نہ ملا ہوں نہ ہی مینے ان کی آج تک شکل دیکھی ہے ،میں اس انٹیلی جنس افسر کو بھی اچھی طرح جانتا تھا وہ انتہائی ایماندار اور فرض شناس افسر تھا اس کی ایمانداری کایہ عالم تھاکہ اسے محکمہ کی طرف سے 2 گاڑیاں ملی ہوئی تھیں مگر وہ ڈیوٹی کے اوقات کے بعد اپنی پرانی شکستہ حال چھوٹی سی ایف ایکس استعمال کرتا تھا اس کے متعلق چاچڑ صاحب کی بات سن کر مجھے تعجب ہوا اور مینے اس افسر سے کچھ دن بعد اس معاملہ پر بات کی تو حیرت ہوئی، انہوں نے ایس ایس پی چاچڑ کے علاقہ کے بدنام ڈاکوؤں "نادر جسکانی” اور "چاچڑ” کاحوالہ دے کر وہی گھسی پٹی کہانی سنائی اور طنزیہ انداز میں بولے تمھارا دوست انہیں پناہ فراہم کرتاہے اس کی چھتری تلے یہ دونوں ڈاکو ہمیشہ پولیس آپریشن سے بچ کر نکل جاتے ہیں اور متعدد بار چاچڑ صاحب سے ان ڈاکوؤں کی گرفتاری میں مدد مانگی گئی مگر وہ ٹال جاتے ہیں، ان کی بات سن کر مجھے اندازہ ہوا کہ گھوٹکی کے علاقہ کے بدنام ڈاکوؤں کے متعلق ان کی ساری معلومات غیر مصدقہ اور فدویوں کی دفتر میں بیٹھ کر گھڑی ہوئی افسانوی کہانیوں پر مبنی تھی جب مینے انہیں عبداللہ چاچڑ کے پس منظر اور ان کی شرافت و وضع داری سے تفصیلا آگاہ کیا تو وہ پریشان ہوگئے پہلے تو انہیں یقین ہی نہیں آرہاتھا مگر وہ مجھے اور میرے کردار سے بھی اچھی طرح واقف تھے تاہم ان کے اعتراضات میں ایک نکتہ ایسا تھا جس پر میں بھی ٹھٹھک گیا کہ ان ڈاکوؤں کے خلاف ایس ایس پی اداروں اور ضلعی پولیس سے تعاون کیوں نہیں کرتے اس پر مینے ان دنوں دستیاب صوتی رابطوں کی سہولت کو استعمال کرکے دونوں کی پی ٹی سی ایل ٹیلی فون پر بات کروادی چاچڑ صاحب نے ایک جملے میں انہیں مطمئن کردیا کہ اگر میری طرح آپ کا گھر بھی گھوٹکی کے کچے کے گائوں میں ہوتا اور آپ کے بچے چھوٹے ہوتے اور اس گائوں سے روزانہ پڑھنے گھوٹکی کے اسکول یا کالج میں غیر محفوظ سفر کرکے جاتے تو اس قدر طاقت ور ڈاکوؤں کی دشمنی آپ مول لیتے جب انہوں نے اپنی بات ختم کرتے ہوے کہاکہ سائیں ہماری مجبوریوں کو بھی سمجھیں تو انٹیلی جنس افسر کو کف افسوس ملتے دیکھا، الوداع کہتے ہوے انہوں نے مجھ سے وعدہ کیاکہ میں چاچڑ صاحب کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا کفارہ ادا کرونگا ان سے فارغ ہوکر گھر پہنچا اور چاچڑ صاحب کو خوش خبری سنائی تو وہ خوش ہوگئے اور پھر صرف ایک ہفتے بعد ہی عبداللہ چاچڑ کی نئی تقرری ایس ایس پی حیدر آباد کی حیثیت سے ہوگئی وہ خوشی سے نہاں تھے اپنے نئے عہدہ کاچارج لیتے ہی مجھے فون کیا اور حیدر آباد آنے کی دعوت دھرائی میں ان کے اصرار پر گیا تو پورا ایک ہفتہ انہوں نےروکے رکھا حیدر آباد میں ایس ایس پی کا بنگلہ انگریز دور کا تعمیر کردہ بہت بڑا اور شاندار ہے میں اور چاچڑ صاحب یا انکا ملازم اور چند افراد پر مشتمل حفاظتی عملہ ہی اتنے بڑے بنگلہ میں رہائش پذیر تھے بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا تھاکہ ہم بھوت بنگلہ میں رہ رہے ہیں ان کے تینوں بچے زیر تعلیم تھے اس لئے انہیں وہ ساتھ نہیں لائے تھے پھر ایک سال بعد ہی ان کا تبادلہ ایس ایس پی ٹریفک سندھ ہوگیا اور وہ کراچی منتقل ہوگئے ان دنوں پورے سندھ کا ایک ایس ایس پی ٹریفک ہوتا تھا جس کی ماتحتی میں صوبے بھر کی ٹریفک پولیس ہوتی تھی اور سپر ہائی وے یانیشنل ہائی وے پولیس بھی انہی کی ماتحتی میں آتی تھی اسی طرح کراچی پولیس بھی ایک ایس ایس پی کی ماتحتی میں کام کرتی تھی ضلعی پولیس کے علاوہ سی آئی اے کابھی ایک ایس ایس پی ہوتا تھا صدر میں اس کا دفتر ہوتا وہ پولیس کے متبادل کام کرتا تھا سنگین جرائم اور بڑے واقعات کی تفتیش اس کے سپرد کی جاتی، یوں یہاں بھی چاچڑ صاحب کی بھر پور شفقت مجھے میسر رہی اور آج بھی ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں جب بندہ سچائی کو اوڑھنا بچھونا بنالے ایمانداری سے فرائض انجام دے تو پھر قدرت اسے دنیا میں ہی مالا مال کر دیتی ہے عبداللہ چاچڑ آج اس دنیا میں نہیں مگر ان کے وہ 3 بیٹے جن کی حفاظت اور تعلیم کے لئے وہ ایسے سمجھوتے بھی کر بیٹھے تھے جس سے ان کی نوکری دائو پر لگ گئی تھی آج اپنی صلاحیتوں کے بل پر اعلی عہدوں پر فائز ہیں اور میں ان میں سے دو سے نہ کبھی ملا نہ واقف ہوں مگر پورا سندھ ان کی صلاحیتوں کے کمالات کی داد دیتا ہے ان کا بڑےبیٹے عثمان عبداللہ چاچڑ گریڈ 21 کے سیکریٹری ہیں پچھلے دنوں وہ سندھ کے سیکریٹری داخلہ رہے ہیں دوسرے بیٹے آرمی میں کرنل ہیں تیسرے بیٹے کیپٹن فیصل عبداللہ چاچڑ ڈی آئی جی ہیں اور تینوں بیٹے سی ایس کا مشکل ترین امتحان پاس کرکے اعلی مناصب حاصل کر پائے ہیں۔۔۔یہ ہے عبد اللہ چاچڑ کے لیے قدرت کا خاص انعام، کوئی اولاد والوں سے پوچھے۔۔۔؟

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*