پاکستان کا وہ علاقہ جہاں لوگ 25 کلومیٹر دور دستیاب سامان کے لیے 1400 کلومیٹر کا ’اذیت ناک سفر‘ کرنے پر مجبور ہیں

’25 کلومیٹر پر دستیاب اشیا کے لیے 1400 کلومیٹر سفر کی مثال شاید دنیا میں کہیں اور نہ ملے۔‘

امین اللہ بلوچ پاکستان کے ایک ایسے علاقے کے رہائشی ہیں جہاں کے باسیوں کو مہنگائی کے اس دور میں ایک عجیب سی مشکل کا سامنا ہے۔ انھیں روز مرہ زندگی کے لیے درکار سامان صرف 25 کلومیٹر دوری پر سستے داموں دستیاب تو ہے لیکن انھیں اس مقام تک جانے کی اجازت نہیں۔

اور اسی لیے انھیں ایک معمول کی چیز کے لیے بھی ایک ایسا طویل اور مشکل سفر برداشت کرنا پڑتا جو ان کے الفاظ میں کسی اذیت سے کم نہیں۔

آپ بھی یقینا یہ سوچنے پر مجبور ہوئے ہوں گے کہ آخر ایسی کیا مجبوری ہے کہ اس علاقے کے لوگ اتنی مشکل سے دوچار ہیں؟مضمون کی تفصیل

  • اس کا جواب کافی سادہ ہے۔ یہ علاقہ بلوچستان کے ضلع واشک کی ایک چھوٹی تحصیل ماشکیل کا ہے جہاں صحرا کی ریت تو ہر طرف ہے لیکن سایہ، پانی اور سڑک ناپید۔

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے جنوب مغرب میں تقریباً 700 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ علاقہ آج تک ایک پختہ سڑک کی سہولت سے محروم ہے لیکن چند سال قبل تک یہ محرومی اتنی بڑی محسوس نہیں ہوتی تھی جتنی اب ہوتی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مقامی لوگ صرف 25 کلومیٹر دور ایرانی علاقے سے انتہائی ارزاں داموں پر ضروریات زندگی خرید سکتے تھے۔

یہی نہیں بلکہ اس ریگستانی تحصیل کا سب سے بڑا ذریعہ معاش بھی ایران سے متصل سرحد ہی سے وابستہ تھا اگرچہ اس کی وجہ سمگل شدہ ایرانی تیل کی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی۔

لیکن چند سال قبل ہی سرحد کی نگرانی سخت ہوئی اور پابندیوں کے بعد ایرانی سستے سامان کی خریدوفروخت آسان نہیں رہی جس کے بعد مقامی افراد کے مطابق انھیں 400 گنا تک مہنگے داموں ضروریات زندگی کوئٹہ سے حاصل کرنی پڑتی ہیں جو 1400 کلومیٹر دور ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سرحدی پابندیوں کے بعد سستا ایرانی سامان بھی مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے۔

مگر ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ بلوچستان کے سابق چیف سیکریٹری احمد بخش لہڑی طویل عرصے تک سرحدی ضلع چاغی کے ڈپٹی کمشنر رہے ہیں۔ ان کے مطابق ’ماضی میں سرحدی معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے چرواہوں کو اجازت تھی کہ وہ دوسرے ملک کی سرحد کے اندر 60 کلومیٹر تک مویشی لے جا سکتے تھے۔ اسی طرح دونوں اطراف کے لوگ 60 کلومیٹر تک ایک دوسرے کے حدود میں اپنا سامان لے جا کر فروخت کر سکتے تھے۔‘

،ویڈیو کیپشنایران سے متصل سرحدی اضلاع میں خوراک اور ایندھن کا انحصار گذشتہ کئی دہائیوں سے ایران پر ہے

واضح رہے کہ بلوچستان کے ایران اور افغانستان سے جڑے زیادہ تر سرحدی اضلاع کے معاش اور روزگار سرحد سے جڑا ہے لیکن ایران سے متصل پانچ مخصوص اضلاع کی آبادی خوراک کی اشیا کے لیے ایران کی جانب ہی دیکھتی ہے۔ ایران پاکستان سرحد پر بلوچستان کے پانچ اضلاع واقع ہیں جن میں چاغی، واشک، پنجگور، کیچ اور گوادر شامل ہیں۔

ایف بی آر اور کسٹمز کے حکام کا یہ موقف رہا ہے کہ بلوچستان میں سرحدوں سے بڑے پیمانے پر سمگلنگ ہوتی ہے جس کی وجہ سے ملک کی معیشت اور صنعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔

اذیت ناک سفر

پاکستان

بی بی سی نے ماشکیل تک کا سفر کیا تا کہ یہ جانا جا سکے کہ کیا واقعی پاکستان کا یہ دور دراز علاقہ اتنی مشکل سے دوچار ہے اور کیا یہاں تک کا سفر اتنا ہی مشکل ہے جتنا بتایا جاتا ہے۔

ہمارے سفر کے دوران پختہ روڈ جس مقام پر ختم ہوئی تو علم ہوا کہ باقی راستہ پانچ گھنٹے ریگستان سے گزرے گا۔ یہاں ڈرائیور انجان ہو تو راستہ بھٹک کر شدید گرمی میں جان سے بھی گزر سکتا ہے۔

ہمارے ڈرائیور اکرام احمد نے بتایا کہ ’مقامی ڈرائیور بھی قافلوں کی شکل میں سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔‘

ماشکیل تک سفر کے دوران بگ نامی علاقہ بھی آتا ہے جہاں ایک نئی مشکل پیدا ہو سکتی ہے۔ زیادہ بارشوں کی صورت میں ایران اور دیگر علاقوں سے سیلابی پانی یہاں اکھٹا ہو کر راستہ بند کر دیتا ہے اور اکثر یہ علاقہ تین ماہ یا اس سے زیادہ عرصے تک باقی پاکستان سے کٹ کر رہ جاتا ہے۔

اس صحرا میں ہم نے سبزہ دیکھا، نہ کوئی سایہ دار درخت، نہ پانی تھا اور نہ کوئی اور سہولت۔

پاکستان

وہ بازار جہاں اب ہر چیز کئی گنا مہنگی ملتی ہے

ماشکیل پہنچنے کے بعد بھی منظر کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ شہر میں دکانیں تو ضرور ہیں جہاں ہر چیز بہت مہنگی ملتی ہے مگر یہاں کوئی بینک نہیں ہے۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازم اپنی پینشن لینے دالبندین جاتے ہیں۔

لیویز کے ایک ریٹائرڈ ملازم عبداللہ نے بتایا کہ 28 ہزار روپے پینشن میں سے چھ ہزار کرایے اور کھانے پر خرچ ہو جاتے ہیں۔

انتہائی پسماندگی سے دوچار بلوچستان کے اس دوردراز علاقے میں لوگ زیادہ تر کیمرے کے سامنے بولنے سے گھبرا رہے تھے۔ لیکن جس نے بھی ہم سے بات کی اس نے یہ سوال ضرور کیا کہ وہ 25 کلومیٹر دور دستیاب سامان کی خریداری کے لیے 1400 کلومیٹر دور موجود مقام کا سفر کیوں کریں۔

بازار میں ہماری ملاقات رحیم داد سے ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ایران سے خریداری کو ترجیح دی جاتی تھی کیوں کہ انتہائی سستی چیزیں تھیں۔‘

پاکستان
،تصویر کا کیپشنلیویز کے ایک ریٹائرڈ ملازم عبداللہ نے بتایا کہ 28 ہزار روپے پینشن میں سے چھ ہزار کرایے اور کھانے پر خرچ ہو جاتے ہیں۔

’پہلے ایک لیٹر ایرانی کوکنگ آئل 70 سے 100 روپے میں ملتا تھا۔ اب 400 سے 500 روپے میں مل رہا ہے۔ 40 کلو آٹے کا جو تھیلا ایران سے 600 روپے میں آتا تھا، اب پانچ ہزار روپے سے زیادہ میں لینا پڑتا ہے۔‘

’ایران سے 10 کلو گیس کا سیلنڈر ہمیں 600، سردیوں میں 800 میں ملتا تھا۔ اب پابندیوں کے باعث پاکستان کے دوسرے حصوں سے آنے والا سیلنڈر چار ہزار روپے میں بھی نہیں ملتا۔‘

گوشت کی ایک دکان پر ہماری ملاقات ایک اور خریدار امین اللہ بلوچ سے ہوئی۔ ان کا بھی کچھ ایسا ہی شکوہ تھا۔

’پاکستان سے آنے والا مرغی کا گوشت 800 روپے تک میں مل رہا ہے لیکن ڈیڑھ ماہ پہلے اس کی قیمت ہزار سے 1200 روپے تک پہنچ گئی تھی۔ جب سرحد کھلی ہوئی تھی تو ایرانی مرغی کا گوشت ہمیں 250 سے 300 روپے میں ملتا تھا۔ ٹماٹر اور دیگر سبزیاں بھی بہت سستی ملتی تھیں لیکن اب ہم ہر چیز مہنگی خریدنے پر مجبور ہیں۔‘

ایک علاقے میں بڑی تعداد میں دکانوں کی بندش کی وجہ پوچھنے پر مقامی صحافی نصیر کبدانی نے بتایا کہ ’جب سرحد کھلی تھی تو یہ دکانیں چل رہی تھیں اور اس علاقے میں گاڑیوں اور لوگوں کی اتنی تعداد ہوتی تھی کہ یہاں سے گزرنا مشکل ہوتا تھا، لیکن اب یہاں ویرانی ہے۔‘

ایک دکاندار نے بتایا کہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے ایرانی اشیاء کی لاگت بھی بہت زیادہ ہو چکی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’کراچی اور پنجاب پاکستان کے ایک کونے پر ہیں جبکہ ماشکیل دوسرے کونے پر۔ اس لیے پاکستانی اشیا کی لاگت بھی یہاں پہنچنے تک بہت زیادہ ہوتی ہے۔‘

پاکستان

یہیں ہماری ملاقات شکراللہ سے ہوئی جو پیشے کے اعتبار سے ڈرائیور اور سرحدی پابندیوں سے متاثرہ افراد میں شامل ہیں۔ شکر اللہ نے ہم سے پوچھا کہ آپ بتاؤ کہ ماشکیل میں ہے کیا؟

انھوں نے کہا کہ ’خدا کے لیے سرحد سے تجارت اور کھانے پینے کی اشیا کی آمدورفت کو بند نہیں کیا جائے کیونکہ اس سے ہم مر جائیں گے۔‘

مقامی سیاسی رہنما ظریف بلوچ نے کہا کہ ان کے خیال میں ’شاید دنیا میں ایسی مثال کم ہی ملے کہ 25 کلومیٹر دور ملنے والی اشیا کے لیے لوگوں کو 14 سو کلومیٹر آمدورفت کرنا پڑے۔‘

اس کی وجہ یہ ہے کہ سرحد پر باڑ لگ چکی ہے اور کورونا وبا کے بعد بہت سے تو ایسے کراسنگ پوائنٹ بند ہو چکے ہیں جہاں سے ماضی میں لوگ قانونی طور پر آمدورفت کے ساتھ کھانے پینے کی اشیا آرام سے لے آیا کرتے تھے۔

چند ہفتے قبل ماشکیل کے عوام کی مشکلات اجاگر کرنے کے لیے کوئٹہ تک لانگ مارچ کی قیادت کرنے والے جیئند بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ باڑ لگ جانے کے بعد چند ہی کراسنگ پوائنٹ باقی رہ گئے ہیں جن میں سے صرف ایک گزر نامی گیٹ سے محدود پیمانے پر ایرانی تیل لانے کی اجازت ہے۔

کوئٹہ تک احتجاج کے لیے پیدل مارچ کرنے والے مقامی افراد میں ایک پیر سے معذور اسماعیل بلوچ اور خان محمد بھی شامل تھے۔

انھوں نے ہمیں بتایا کہ کوئٹہ میں ان کو سرکاری سطح پر یقین دہانی کرائی گئی کہ ’ایک گیٹ، زیرو پوائنٹ کو، آمدورفت کے لیے کھولنے کے علاوہ مزہ سر نامی کراسنگ پوائنٹ کو کھول دیا جائے گا مگر ڈیڑھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود عملی طور پر کچھ نہیں ہوا۔‘

  • مقامی رہنما ظریف بلوچ کے مطابق ’ہم حکومت کو کہتے ہیں کہ سرحد پر سیکیورٹی کے حوالے سے جتنی سختی کر سکتے ہو کرو لیکن خدارا کھانے پینے کی اشیا اور ایندھن کے لیے گزرگاہوں کو کھولا جائے۔‘

اس مطالبے کی وجہ سستی اشیا کا حصول ہی نہیں بلکہ روزگار بھی ہے۔ کوئٹہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن اور سابق صدر فدا حسین دشتی کا کہنا ہےکہ ’بلوچستان کے ایران سے جڑے سرحدی علاقوں میں جو تھوڑا بہت معاش اور روزگار ہے وہ سرحدی تجارت کی وجہ سے ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کے معاشی حالات میں حکومت سرحدی علاقوں میں ایرانی سستی اشیاء اور ایندھن کا متبادل فراہم کرنے کی مالی سکت نہیں رکھتی کیوں کہ یہ علاقے اتنے دور دراز ہیں کہ خود سرکار اپنے استعمال کے لیے وہاں تیل نہیں پہنچا سکتی۔‘

ان کے مطابق ’سرحد سے تیل آنے کی وجہ سے پاکستان کا زرمبادلہ بچ رہا ہے کیونکہ ایرانی سرحد پر تمام تجارت مقامی کرنسی میں ہوتی ہے۔‘

حکومت کا موقف کیا ہے؟

پاکستان
،تصویر کا کیپشن’25 کلومیٹر پر دستیاب اشیا کے لیے 1400 کلومیٹر سفر کی مثال شاید دنیا میں کہیں اور نہ ملے‘

ماشکیل کے انتظامی سربراہ اسسٹنٹ کمشنر احمد زیب کاکڑ نے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت ایران کی سرحد سے منسلک مزہ سرکراسنگ پوائنٹ کو جلد کھول دے گی۔

دوسری جانب بلوچستان کے وزیر خزانہ میر شعیب نوشیروانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا کہ کہا کہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں پسماندگی زیادہ ہے۔

’بجٹ کی کتابوں میں فنڈز ہوتے ہیں لیکن وہ صحیح معنوں میں نہیں لگتے۔ اگر وہ فنڈز صحیح معنوں میں لگ جاتے تو صورتحال مختلف ہوتی اور لوگوں کو بہت ساری سہولیات مل جاتیں۔‘

انھوں نے کہا کہ سرحدی علاقوں کے لوگ سینکڑوں سال سے آباد ہیں جن کی رشتہ داریاں سرحد کے پار بھی ہیں۔ ’لیکن پہلے اور آج کے حالات مختلف ہیں۔‘

وزیر خزانہ نے کہا کہ ’اگر سرحدی تجارت بند ہوتی ہے تو سرحدی علاقوں کے لوگ اس سے بہت زیادہ متاثر ہوں گے اور جب تک نعم البدل نہیں ہوتا تو اس سے پہلے اسے بند کرنے سے بہت سارے مسائل پیدا ہوں گے۔‘ تاہم ان کے مطابق سرحدی تجارت کے لیے بین الاقوامی معیار کو اپنانا پڑے گا۔

شعیب نوشیروانی نے کہا کہ ’ماشکیل کے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ انھیں ایک پوائنٹ کھول کر دیا جائے تاکہ وہ اپنے لیے خوراک اور دیگر اشیا لا سکیں‘ اور انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

مطالبوں اور دعووں کی بھرمار سننے کے بعد ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا تو ایک بار پھر اسی صحرا سے گزر کر جانا تھا جسے پار کرتے کرتے چہرے دھول سے بھر جاتے ہیں اور حلق خشک ہو جاتے ہیں۔

پاکستان

اسی صحرا سے گزرتے ہوئے ہمیں ایک ڈبل ڈور پک اپ گاڑی نظر آئی جو تکنیکی مسئلے کا شکار تھی۔ قریب پہنچے تو علم ہوا کہ خواتین اور بچوں سمیت مسافروں کے پاس پانی ختم ہو چکا تھا۔ ایسے میں ہم نے پانی کی پیشکش کی تو ان کی سانس میں سانس آئی۔

عزت اللہ نامی ایک مسافر نے بتایا کہ ان کی گاڑی شدید گرمی میں دو گھنٹے سے خراب کھڑی ہے جس میں خواتین اور بچے بھی تھے۔ عزت اللہ نے کہا کہ ’اگر آپ کی گاڑی نہیں آتی تو شدید گرمی میں معلوم نہیں ان کا کیا حال ہوتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان صحراوں میں گرمی اور پیاس کی وجہ سے کئی لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔

’حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک پختہ روڈ بنا دے اور ان صحراوں میں پانی اور سایے کا انتظام کرے تاکہ کسی مشکل میں لوگوں کی جان نہ جائے۔‘

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*