’بچہ کہتا رہا میرے پاپا نہیں آئے‘: بلوچستان میں شدت پسندوں کے حملوں میں بچ جانے والے عینی شاہدین نے کیا دیکھا

’مجھے وہاں کوئی خطرہ نہیں۔۔۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ میں ان کے لیے پنجاب سے ضروری چیزیں لے کر جاتا ہوں اور ان کے پھل اور سبزی پنجاب لے کر جاتا ہوں۔‘

پنجاب کے ضلع لیّہ سے تعلق رکھنے والے محبوب حسین کے برادرِ نسبتی سجاد حسین کہتے ہیں کہ ان کے بہنوئی سے جب بلوچستان میں سفر کے دوران احتیاط برتنے کا کہا جاتا تو وہ اس طرح کے جملے ادا کیا کرتے تھے۔

چھ بچوں کے باپ محبوب حسین پیشے کے اعتبار سے ایک ڈرائیور تھے اور انھوں نے حال ہی میں قسطوں پر ایک شہزور ٹرک بھی لیا تھا۔ یہ ان بدقسمت لوگوں میں شامل تھے جنھیں 25 اگست کی رات بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل میں شدت پسندوں نے قتل کر دیا تھا۔

سجاد حسین کہتے ہیں کہ ’وہ قسطوں کو پورا کرنے کے لیے بہت محنت کرتے تھے، اکثر مناسب آرام بھی نہیں کرتے تھے۔ ساری زندگی انھوں نے ایک کمرے کے مکان میں گزار دی تھی، جب کبھی بارشیں ہوتیں تو اس کمرے میں بھی پانی بھر جاتا تھا۔‘

پنجاب سے تعلق رکھنے والے پھلوں کے ایک بیوپاری نے نام نہ ظاہر کرنے پر بی بی سی اردو کو بتایا کہ وہ اس سیزن میں بلوچستان سے سیب خرید کر لاتے تھے اور اس بار انھوں نے اس کام کے لیے محبوب حسین کا ٹرک کرایے پر حاصل کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں اور اُستاد حسین بھاگ رہے تھے اور وہ (شدت پسند) پیچھے سے فائرنگ کر رہے تھے۔ میرے سامنے اُستاد محبوب حسین نیچے گر گیا، میں انھیں دیکھنے کے لیے پلٹا تو ایک شخص نے ان کی نبض دیکھ کر کہا کہ وہ مر چکے ہیں۔‘

خیال رہے بلوچستان میں کالعدم علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے صوبے بھر میں آپریشن ’ھیروف‘ کا اعلان کیا تھا۔ بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ سرفراز بُگٹی کے مطابق ان حملوں میں 38 شہری ہلاک ہوئے۔

دوسری جانب پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ ان کی جوابی کارروائی میں21 شدت پسند ہلاک ہوئے جبکہ اس آپریشن کے دوران 14 فوجی اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔

ان حملوں میں سب سے بڑا حملہ بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل میں ہوا جہاں شدت پسندوں نے 22 لوگوں کی شناخت چیک کرنے کے بعد انھیں بس اور ٹرکوں سے اُتار کر موت کے گھاٹ اُتار دیا۔

موسیٰ خیل کی مقامی انتظامیہ کے مطابق ان افراد میں سے 17 کا تعلق صوبہ پنجاب کے مختلف اضلاع سے تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں ضلع لیّہ کے چار ڈرائیور بھی موجود تھے۔

بی بی سی اردو نے اس واقعے کے عینی شاہدین سے بات کی تاکہ معلوم ہو سکے کہ وہاں ہوا کیا۔

بلوچستان، بی ایل اے
،تصویر کا کیپشنبلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ سرفراز بُگٹی کے مطابق ان حملوں میں 38 شہری ہلاک ہوئے

’جان بچانی ہے تو بھاگو‘

ضلع لیہ کے بیوپاری کہتے ہیں کہ محبوب حسین شہزور ڈرائیو کر رہے تھے، یہ وہی ٹرک تھا جس کی قسطیں بھرنے کے لیے وہ اکثر فکرمند رہتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ڈرائیونگ کے دوران محبوب حسین گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک ہم نے دیکھا کہ کچھ گاڑیوں کو روکا ہوا ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ جان بچانی ہے تو بھاگو۔‘

’محبوب حسین نے کہا میرے ٹرک کا کیا ہو گا۔ میں نے ان سے کہا کہ زندہ رہے تو ٹرک مل جائے گا اور تقریباً دھکا دے کر محبوب حسین کو گاڑی سے باہر نکالا۔‘

بیوپاری کے مطابق ’ہم کوئی دو یا تین منٹ ہی دوڑے ہوں گے کہ اچانک فائرنگ ہوئی اور میرے پیچھے استاد محبوب حسین اور دیگر افراد زمین پر گر پڑے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس واقعے کے بعد گھنٹوں چھپے رہے اور جب سکیورٹی فورسز کی گاڑیوں کی آواز سُنی تو باہر نکلے۔یہ بھی پڑھیے

  • ’میرا بچہ کہتا رہا کہ میرے پاپا ابھی تک نہیں آئے‘

ضلع موسیٰ خیل میں جن بسوں کو روکا گیا ان میں سے ایک بس میں پنجاب کے علاقے پاکپتن سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اپنے دو بچوں اور شوہر کے ساتھ سفر کر رہی تھیں۔

انھوں نے ضلع کوہلو سے تعلق رکھنے والے صحافی دوران بلوچ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب بس رُکی تو سب کے شناختی کارڈر لے لیے گئے اور پھر کہا گیا کہ ’پنجابی اُتر جائیں۔‘

خاتون نے کہا کہ ’جب کچھ لوگ اتر گئے اور گاڑی روانہ ہوئی تو میں نے اللہ کا واسطہ دے کر کہا کہ پانچ افراد واپس نہیں آئے۔ آپ لوگ رُک جائیں اور ان کو بُلا لیں لیکن گاڑی نہیں رُکی اور آگے سے گاڑی پر فائرنگ بھی کی گئی۔‘

خاتون نے بتایا کہ وہ لوگ بس سے اُتر کر قریب ہی واقع ایک مسجد میں چلے گئے اور پوری رات وہیں گزاری۔

وہ کہتی ہیں کہ ’صبح چار بجے آرمی والے وہاں آئے اور انھوں نے ہمیں نکالا۔ میرے دونوں بچوں کو بخار تھا، کسی نے اس وقت ہمارا ساتھ نہیں دیا تھا۔‘

’میرا بچہ بار بار کہتا رہا کہ امی میرے پاپا ابھی تک نہیں آئے، میرے پاپا ابھی تک نہیں آئے۔‘

اسی بس میں بلوچستان کے ضلع دُکی سے تعلق رکھنے والے شہری عبدالشکور ناصر بھی موجود تھے جو کسی کام سے پنجاب جا رہے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ رات کو تقریباً پونے دس بجے ان کی بس کو مسلح افراد نے روکا اور کہا کہ شور مچائے بغیر بس میں موجود کنڈیکٹر تمام لوگوں کے شناختی کارڈ لے کر نیچے اُتر آئے۔

’اس کے بعد مسلح افراد نے کہا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد اُتر جائیں اور پھر بس سے پانچ، چھ افراد اُتر گئے۔‘

انھوں نے بتایا کہ پانچ کے قریب خواتین اور بچے بھی تھے جنھیں مسجد بھیج دیا گیا جبکہ مرد قریبی پہاڑیوں اور جھاڑیوں کی طرف فرار ہو گئے۔

کوہلو سے تعلق رکھنے والے صحافی دوران بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ واقعے کی کوریج کے لیے پہنچے تو وہاں سڑک پر خون ہی خون تھا اور جلائی گئی کئی گاڑیوں سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔

ان کے مطابق لاشوں اور مسافروں کو قریب ہی واقع راڑہ ہاشم پولیس سٹیشن لے جایا گیا تھا جبکہ وہاں موجود کوئلے، سیب اور انگور کے 12 ٹرکوں کو آگ لگا دی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جس علاقے میں ان گاڑیوں کو روکا گیا تھا وہ حسن آباد کا علاقہ تھا اور وہاں اسی نام سے ایک بورڈ بھی لگا تھا۔‘

ان کا کہنا تھاکہ یہ بہت زیادہ ویران علاقہ نہیں تھا بلکہ اس کے قریب نہ صرف آبادی تھی بلکہ یہ راڑہ ہاشم شہر اور اس کے پولیس سٹیشن سے بھی بہت زیادہ دور نہیں تھا۔‘

بلوچستان، بی ایل اے
،تصویر کا کیپشنپاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ ’جلد ہی دہشتگردوں کو سخت پیغام دیا جائے گا‘

’کدھر سے آ رہے ہو اور کہاں جا رہے ہو‘

بلوچستان میں فائرنگ کے واقعات میں پنجاب کے ضلع وہاڑی سے تعلق رکھنے والے قدیر اسلم اور شہباز بھٹی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ دونوں افراد ڈرائیور تھے اور بلوچستان سے پھل لے کر واپس آ رہے تھے۔

ان کے ہمراہ ان کے معاون (ہیلپر) محمد نصیر بھی موجود تھے جو حملے میں خوش قسمتی سے بچ گئے۔

انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ قدیر اسلم مزدا ٹرک کے مالک تھے جبکہ شہباز بھٹی ان کے دوست تھے اور ساتھ ڈرائیونگ کا کام کیا کرتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں ڈیرہ غازی خان، پنجاب سے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ دور تھے تو اس وقت ہمیں وردی میں ملبوس کچھ لوگوں نے روکا اور پوچھا کہ کدھر سے آ رہے ہو اور کہاں جا رہے ہو؟‘

ان کا کہنا تھا کہ وردی میں ملبوس افراد نے لائسنس اور شناختی کارڈ مانگا اور کہا کہ نیچے آجاؤ۔

’میں دیکھ رہا تھا کہ انھوں نے شناختی کارڈ اور لائسنس دیکھا اور ایک دم ایک شخص نے میرے دونوں استادوں پر فائرنگ کردی، جس کے بعد وہ دونوں زمین پر گر گئے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ وہ پیچھے کھڑے ایک ٹرک کے نیچے چھپنے میں کامیاب ہو گئے اور وہاں کافی دیر موجود رہے۔

’مسلح افراد ٹرکوں کو روکتے، لائسنس اور شناختی کارڈ دیکھتے۔ کسی کو جانے دیتے اور کسی پر فائرنگ کر دیتے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ تھوڑی دیر بعد انھوں نے اس مقام سے دوڑ لگا دی اور جب سکیورٹی فورسز کے اہلکار وہاں آئے تو انھیں پانی پلایا گیا اور انھیں قدیر اسلم اور شہباز بھٹی کی شناخت کے لیے لے جایا گیا۔

واقعے میں ہلاک ہونے والے قدیر اسلم کے چچا ارشد جٹ کہتے ہیں کہ ان کے بھتیجے کی عمر 29 سال تھی اور ان کے دو بچے بھی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرک قدیر اسلم کا اپنا تھا اور اس کے ساتھ مددگار ڈرائیور کے طورر پر شبہاز بھٹی کام کرتے تھے جو کہ قدیر اسلم کے بہت قریبی دوست بھی تھے۔

پھلوں کے ایک اور بیوپاری اسماعیل گِل بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو شدت پسندوں کے حملے سے معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے ڈرائیور کے ہمراہ لورالائی جارہے تھے کہ اچانک انھوں نے فائرنگ کی آواز سُنی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب گاڑی تھوڑی اور آگے چلی تو کچھ اور فائر ہوئے، ڈرائیور اسلم نے بھی یہ آوازیں سنیں اس نے میری طرف دیکھا تو میں نے کہا کہ گاڑی کھڑی کرو اور روڈ سائیڈ سے آگے نکل چلو۔‘

’اس موقع پر ہم نے محسوس کیا کہ کچھ لوگ ہمارا تعاقب کررہے ہیں اور فائرنگ بھی کررہے ہیں تاہم ہم میں سے کوئی نہیں رکا اور کافی آگے تک چلے گئے۔‘

اسماعیل گل بتاتے ہیں کہ وہ خود تو پنجابی بولتے ہیں مگر بلوچستان میں کاروبار کرتے ہیں، پنجاب سے مرغیاں اور انڈے بلوچستان لے کر جاتے ہیں اور وہاں سے پھل اور سبزیاں لاتے ہیں اس لیے کچھ نہ کچھ بلوچی جانتے ہیں۔

’میں نے ان لوگوں (مسلح افراد) کو اونچی آواز میں بلوچی زبان میں بات کرتے ہوئے سُنا۔ ایک شخص کہہ رہا تھا کہ یہ ضرور پنجابی یا پٹھان ہوں گے، بھاگ گئے ہیں۔ ان کی گاڑی کو آگ لگا دو اور پھر انھوں نے گاڑی کو آگ لگا دی تھی۔‘

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*