
کراچی (رپورٹ: اے آر ملک) — کے ڈی اے (کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی) کا ایک معمولی کلرک جاوید مائیکل، جعلسازی، زمینوں پر قبضے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے ذریعے ارب پتی بن چکا ہے۔ اس کے خلاف اینٹی کرپشن اور عدالتی فورمز پر متعدد انکوائریاں اور مقدمات موجود ہیں، مگر اب تک کسی بھی کارروائی کا خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آ سکا۔
جاوید مائیکل کی لوٹ مار پر مبنی سرگرمیوں کی تفصیل بارہا قومی و مقامی اخبارات میں شائع ہو چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق عدالتوں میں اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائیاں بھی ریکارڈ پر موجود ہیں، مگر وہ بدستور اثرورسوخ کا فائدہ اٹھا کر سرکاری نظام کا مذاق اڑاتا رہا ہے۔
باوثوق ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جاوید مائیکل سرعام یہ دعویٰ کرتا ہے کہ، "کسی وزیر کی جرأت نہیں کہ مجھے ہاتھ لگائے، جو ہاتھ لگائے گا، نہ صرف وزارت جائے گی بلکہ زندگی میں خواری بھی آئے گی”۔ اس بیان سے اس کی پشت پناہی کرنے والے طاقتور حلقوں کی موجودگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس شخص کی بدعنوانیوں میں درج ذیل سرکاری و نجی املاک شامل ہیں جن پر مبینہ طور پر جعلی دستاویزات کے ذریعے قبضہ یا ملکیت حاصل کی گئی:
مکان نمبر L-552، سیکٹر 5/A-2 نارتھ کراچی
مکان نمبر R-638/4، سیکٹر 11-A نارتھ کراچی
پلاٹ نمبر R-574، سیکٹر 15-A/3 بفر زون
پلاٹ نمبر L-3 اور L-4، سیکٹر 5-D، نارتھ کراچی
مکان نمبر R/124، سیکٹر 5-L نارتھ کراچی
گورنمنٹ ڈگری کالج، سلیم سینٹر، سیکٹر 11-I، نارتھ کراچی کا 11 ایکڑ سے زائد رقبہ
ذرائع کے مطابق کالج انتظامیہ اور مقامی عوامی دباؤ پر وقتی طور پر یہ معاملہ تھم گیا ہے، مگر قانونی حل اب تک سامنے نہیں آ سکا۔
جاوید مائیکل نے نہ صرف خود دولت بنائی، بلکہ اپنی بہن، بہنوئی، بیٹی، دوسری بیوی، سابقہ بیوی، راج مستری اور دیگر قریبی افراد کو بھی پراپرٹی اور اثرورسوخ سے نوازا۔ اس کے خلاف جاری ایک نئی انکوائری آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے، جس کی تفصیل جلد شائع کی جائے گی۔
ان حقائق کے باوجود ڈی جی KDA اور دیگر اعلیٰ افسران کی خاموشی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ قوم میں بے بسی کی فضا ہے اور عوام اب انصاف کی امید لے کر آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نیب (NAB) اس معاملے کا فوری نوٹس لے اور اس کلرک سے اربوں کی کرپشن کا حساب لیا جائے۔
