‏SBCA بھتے کی آماجگاہ یا رشوت ستانی کا گڑھ

پٹہ سسٹم چلانے والے نام نہاد بلڈرزنے اپنے ہی برادری کے دیگر بلڈرز کی زندگی اجیرن کردی


نام نہاد بلڈرجو پٹہ سسٹم کا کنگ بنا ہوا ہے۔اس کو شاید فرمائشی FIR درج کرنا بھی ڈیفنس کی کسی ڈانس پارٹی کرنے جیسا لگا


فرمائشی ایف آئی آر درج کرنے والے ایس ایچ او شاید پٹہ سسٹم کو یہ بتانا بھول گئے کہ قانون اندھا ہوسکتا ہے مگر انصاف نہیں

کراچی (رپورٹ O اے آر ملک) 22-06-2023 کوجو واقعہ مقامی بلڈر کے ساتھ ہوا وہ بھتہ ہے یا ر شوت ؟ ایک طرف بلڈر مافیا اپنے تمام مقاصد بلڈنگ کنٹرول کے پٹہ سسٹم سے حاصل کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ نام نہاد بلڈر جو آج ایک مضبوط پٹہ سسٹم چلا رہے ہیں۔ وہ اپنے ہی بلڈر حضرات کی زندگی اجیرن کئے ہوئے ہیں۔ نام نہاد بلڈر جو پٹہ سسٹم کا کنگ بنا ہوا ہے ۔اس کو شاید فرمائشی FIR بھی ڈیفنس کی کسی ڈانس پارٹی کرنے جیسا لگا ۔ مگر قانون تو اپنا راستہ خود لیتا ہے ۔ SHO پریڈی کیا قانون سے نابلد ہے ؟ یا پٹہ سسٹم کے مال کے آگے اس کی آنکھیں چند یا گئی ہیں ؟ ساﺅتھ ڈسٹرکٹ کے تھانیدارکو کیا ڈسٹرکٹ سینٹرل کا کوئی فلیٹ پسند آگیا جو قانون کو بالائے طاق رکھ کر فرمائشی FIR درج کردی جو آنے والے چند دنو ں میں خود موصوف کے اور مدعی بلال کے گلے میں پڑنے والی ہے ۔ موصوف SHO کو یہ نہیں معلوم کہ سرکاری آفیسر چاہے کسی بھی ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھتا ہو وہ کسی سے اگر پیسے طلب کرتا ہے تو وہ بھتہ نہیں رشوت کہلاتی ہے اور اس کا ایک الگ ادارہ ہے جسے اینٹی کرپشن کہا جاتاہے سندھ پولیس کسی بھی سرکاری افسر کو پکڑنے کی مجاز نہیں مگر لگتاہے یہاں اندھا قانون چوپٹ راج ہے ۔ مگر SHO موصوف پٹہ سسٹم کو یہ بتانا بھول گئے کہ قانون اندھا ہوتا جج نہیں ‘ جج صاحب کو سب نظر آتا ہے FIR میں نامزد 4 لوگوں کا کردار تو نظر آیا ۔ مگر پانچویں شخص کا کردار FIR میں موصوف لکھنا بھول گئے جس کسی کی فرمائش پر نام ڈال دیا جس کی کوئی قانونی شق ہی نہیں بنتی ۔ FIR کا متن بھی لگتا ہے کسی 2016/2017 کی بھرتی والے نے قلمبند کیاہے ۔ پٹہ سسٹم کے کردار فرمائشی FIR کے وقت بھول گئے کہ یہ تمام معاملہ اینٹی کرپشن کی شق 52اینٹی کرپشن ایکٹ ناقابل ضمانت اور Amount کے حساب سے شق161 پاکستان پینل کوڈ لگتی ہے ۔ جو کہ قابل ضمانت ہے اور ریمانڈ کے وقت بھی ضمانت FILE ہوجاتی ہے ۔ SBCA کے جو لوگ اس معاملے میں ملوث ہیں ۔ ان کو بھی چاہیے تھا کہ سعودیہ سے آنے والی کالز (جوکہ ان کے اپنے کولیک)کی بات پر کان دھرتے تو آج جیل کی گرم ہوا نہیں کھا رہے ہوتے تو بقول
شاعر میرے خلاف عدالت بھی تھی زمانہ بھی
مجھے تو جرم بتاتا بھی تھاچھپانا بھی
اور اب کی بار تو ایسی کمان کھنچی ہے
کہ تیرے اُدا نشانا بھی اور نشانہ بھی
جو سانپ غیر ضروری تھے مار ڈالے ہیں
اب آستین بھی سلامت ہے اور آستانہ بھی
مزید حقائق سے جلد پردہ اٹھایا جائے گا ۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*