Qaumi Akhbar

تحریک پاکستان کا ایک گمنام سپاہی

تحریر: اختر بھوپالی

تحریک پاکستان کی کامیابی میں ایسی بے شمار شخصیات کی کاوشیں شامل ہیں کہ اگر ان کی جدوجہد کو فراموش کردیا جائے تو تکمیل پاکستان ممکن ہی نہیں ہوتی ۔ مگر اس کا کیا کریں کہ آج کا مؤرخ صرف وہ لکھ رہا ہے جو اس سے لکھوایا جارہاہے اور یوں نئی نسل کو گمراہ کرنے کی سازش ہورہی ہے ۔ ایسی ہی ایک شخصیت ”نواب حمید اللہ خان آف بھوپال کی ہے کہ جن کی کاوش کو اگر تاریخ سے نکال دیا جائے تو تکمیل پاکستان ممکن ہی نہ تھی نواب حمید اللہ خان کا تاریخی کارنامہ تحریک پاکستان کا حصہ تو ہے تاریخ پاکستان میں اس کا ذکر تک نہیں گرچہ نواب حمید اللہ خان یہ جانتے تھے کہ آزاد پاکستان میں ان کی ریاست حصہ دا رنہ ہوگی پھر بھی بے لوث ہوکر قائد اعظم محمد علی جناح کے ہم قدم رہے اور وہ کردکھایا جو کوئی لیڈر نہ کرسکا ۔

نو اب حمیداللہ خان کی ولادت 1894 ء میں ریاست بھوپال میں ہوئ۔ جب وہ چار سال چار ماہ اور چار دن کے ہوئے تو ان کی رسم بسم اللہ ادا کی گئی ۔ کلام پاک کی تعلیم بمعہ ترجمہ اپنی والدہ محترمہ سلطان جہاں سے حاصل کی اردو اور فارسی کیلئے مولوی محمد حسین استاد مقرر ہوئے جبکہ انگریزی تعلیم کیلئے پہلے پنڈت دیوت اور بعد میں ماسٹر لیاقت علی خان سے حاصل کی ۔ الیگزینڈر ہائی اسکول سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کی غرض سے علی گڑھ روانہ کردیا گیا۔1915 ء میں الہ آباد یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ آپنےایک سال تک قانون کا مطالبہ کیا پھر جب علی گڑھ یونیورسٹی کے چانسلر مقرر ہوئے تو انہیں ایل ایل بی ڈگری دے دی گئی ۔ ولی عہد ریاست بھوپال نصر اللہ خان (بڑے بھائی ) اور بعد ازاں جنر ل عبید اللہ (بڑے سے چھوٹے بھائی) کی یکے بعد دیگر اموات کی وجہ سے سرکار عالیہ (والدہ صاحبہ ) نے طے کیا کہ اپنے چھوٹے بیٹے حمید اللہ خان کو اپنی زندگی ہی میں مسند نشینی کریں چنانچہ وائسرائے لارڈ ارون کو خط لکھا مگر آپ کے تعلیمی دور میں آزادی پسند افراد کی ہم نوائی کی وجہ سے آپ کی شخصیت انگریز حکومت کی نظر میں مشکوک تھی ۔ اسی لیے سرکار عالیہ کو لندن کا سفر کرنا پڑااور تقریبا آٹھ ماہ کی جدوجہد کے بعد کامیابی حاصل ہوئی اور یوں16 مئی کو ولی عہد اور 19 مئی کو فرمارواں تسلیم کرلیا گیا اور 09 جون 1926 ء میں تخت نشین ہوئے۔

قاضی ریاست محمد یحییٰ نے علم حکومت ان کے سپرد کیا ۔ نواب صاحب ابتدا ء ہی سے قومی وملی کاموں میں پیش پیش رہے ۔ چنانچہ ریاست بھوپال کو جمہوریت کی راہ پر لاکھڑا کرنے اور اس کو آگے بڑھانے میں ان کی سیاسی سمجھ بوجھ کو بڑا ہاتھ دہا ۔ وہ اپنے زمانہ تعلیم میں ہی ذہنی طورپر آزادی پسندوں کے ہمنوا تھے مگر حکو مت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے کھل کر ان کی حمایت نہیں کرسکتے تھے ۔ اس اعتبار سے انہیں ہندوستانی ریاستوں میں پہلے ترقی پسند ریٔس کہلاتے اور جلد ہی اپنی قابلیت کی وجہ سے ایوان والیان کے چانسلر مقرر ہوئے 1930 کی لندن گول میز کانفرنس میں ایوان دؤسا کے چانسلر کی حیثیت سے شرکت کی ۔ اس موقع پر آزادی کیلئے ان کی تقریر کی تعریف گاندھی جی نے بھی کی اور مہاراجہ پٹیالہ نے انہیں ان الفاظوں سے نوازا ۔ اعلیٰ حضرت (نواب صاحب ) نے گو ل میز کانفرنس کی فیڑرل اسٹریکچرکمیٹی میں ہندوستان کیلئے عرق ریڑی سے ہمارے دلو ں کو محسور کرلیاہے تاریخ آپ کو ہندوستان کی دسثور سازی میں اپنا محسن تصور کرے گی ۔1931 ء کی گول میز کانفرنس میں شرکت فرما کر اپنے حقوق کی حفاظت کیلئے آزادانہ تقریر کی اورپھر جنگ عالمیگر کے موقع پر برطانیہ کے ساتھ غیر معمولی تعاون کی وجہ سے آ پ کی شخصیت بین الاقوامی ہوچکی تھی۔1944-45 کی شملہ کانفرنس میں ہندو پاک کے مذاکرات میں انتہائی اہم کردارادا کیا تو ان کی شخصیت پر اعتماد کرتے ہوئے گاندھی جی نے سادہ چیک دستخط کرکے دیا تقسیم ہند کی بنیاد دوقومی نظریہ کو قرار دیا جاتاہے ۔ جسے کوئی بھی کانگریسی لیڈر تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا ایسے میں نواب حمید اللہ خان نے گاندھی جی کو نہ صرف قائل کیا بلکہ دوقومی نظریے کے مسودے پر ان سے دستخط کرانے میں کامیاب ہوئے اور اپنا طیارہ خود اڑا کر بمبئی قائد اعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے اسی غیر معمولی واقعہ کو نواب صاحب کی صاحبزادی اور ولی عہد سلطنت شہزادی عابدہ سلطانہ نے اپنی خود نوشت میں یوں تحریر کیا ہے ”مجھے یاد ہے والد صاحب گھر پہنچے تو ا ن کے چہرے پر اطمینان تھا ان کا کہنا تھا کہ میں نے گاندھی جی کو اس بات پر راضی کرہی لیا کہ ہندو اور مسلم دو علیحدہ قومیں ہیں اور مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی آواز ہے ۔ آگے چل کر شہزادی لکھتی ہیں اگلی صبح سارے قومی اخبارات میں گاندھی جی کے مانے جانے کی خبر کو شہ سرخی سے شائع کیا ۔ گاندھی جی نے اس کو اپنی سیاسی غلطی تسلیم کیا مگر کانگریس رہنمائوں کے دباؤ کے باوجود اس کی تردید کرنے سے انکار کرتے رہے مگر اس کی سزا انہیں موت کی صورت میں ملی ۔1947 ء میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ریاستوں کو اختیار دیا تو نواب حمید اللہ خان نے دو ر اندیشی سے کام لیتے ہوئے ریاست بھوپال کو اپنی شرائط پر انڈین یونین میں ضم کرلیا ۔
02 فروری 1960 ء کو بھوپال کے آخری فرمارواں نے داعی اجل کو لبیک کہا ان کے انتقال پر پوری ریاست میں صف ماتم بچھ گئی ۔ ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل سوگوا ر تھا اور بلا تفریق مذہب وملت ہر شخص آخری دیدار کا طالب تھا ۔ آپ کو قومی اعزاز کے ساتھ مسجد صوفیہ احمد آباد بھوپال میں اپنی والدہ ماجدہ کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ آسماں تیری طرپہ شبنم افشانی کرے ۔

ایک تلخ حقیقت
قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد نواب حمید اللہ خان کو پاکستان کا گورنر جنرل بنانے کا فیصلہ ہوا تھا اور نواب صاحب کو اس سے آگاہ بھی کردیاگیا تھا ۔ نواب صاحب نے رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ولی عہد شہزادی عابدہ سلطانہ کوجوکہ اسوقت لندن مقیم تھیں بھوپال طلب کیا تاکہ وہ امور سلطنت سنبھالےوہ خود پاکستان جانا چاھتے ہیں مگر بیورو کریسی آڑے آگئی اور پھر…

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
Exit mobile version