Qaumi Akhbar

رنگیلا ڈاکٹر پکڑا گیا

رپورٹ O عارف اقبال


6 جنوری 2023 سہ پہر تین بجے کا وقت تھاایک 23سالہ لڑکی سی ویو ڈیفنس ایوینیو فیز 8کے قریب ساحل سمندر پر پریشان کھڑی تھی اور پریشانی کے عالم میں وہ کبھی ادھر اور کبھی ادھر جاتی لڑکی کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ وہ کوئی حتمی فیصلہ کرنا چاہ رہی ہو لیکن فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار ہے کہ اچانک اس نے اپنی گردن کو سیدھا کیا جیسے وہ کسی نتیجے پر پہنچ گئی ہو اور پھر اچانک اس نے سمندر میں چھلانگ لگادی واقعہ کے مطابق ساحل تھانے کی حدود سی ویو ڈیفنس ایوینیو فیز 8 کے قریب لڑکی نے مبینہ طور پر سمندر میں کود گئی اطلاع ملنے پر ساحل پولیس موقع پر پہنچی اور سمندر میں لڑکی کی تلاش کے لیئے فلاحی ادارے کے غوطہ خوروں سے ریسکیو آپریشن شروع کروایا پولیس کے مطابق سی ویو کے قریب 23 سالہ لڑکی نے مبینہ طور پر سمندر میں چھلانگ لگادی اور تفتیش کے دوران ساحل سے ایک لیڈی پرس ملا جس میں شناختی دستاویز اور دیگر اشیاءملی ممکن ہے برآمد ہونے والا لیڈی پرس اس لڑکی کا ہی ہے جس نے کچھ دیر قبل سمندر میں چھلانگ لگائی شناختی دستاویز کے مطابق لڑکی کی شناخت 23 سالہ سارہ ملک دختر ابرار احمد کے نام سے ہوئی اور شناختی دستاویز میں درج ایڈریس کے مطابق وہ محمود آباد اعظم بستی کی رہائشی ہے سارہ ملک ڈیفنس میں جانوروں کے اسپتال میں کام کرتی تھی پولیس لڑکی کے ورثاءسے رابطے کی کوشش کررہی ہے تاہم واقعہ سے متعلق عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کرتے ہوئے پولیس مزید تفتیش کررہی ہے اس دوران سی ویو سمندر میں ڈوبنے والی سارہ کی تلاش کا کام جاری رہا ایدھی فاﺅنڈیشن کے مطابق ریسکیو آپریشن میں 10 سے 12 غوطہ خور حصہ لے رہے ہیں اور رات گئے تک غوطہ خور دو کشتیوں کی مدد سے سمندر میں لڑکی کو تلاش کرتے رہے

لیکن لڑکی اس وقت تک نہیں مل سکی پولیس کے مطابق لاپتہ لڑکی اعظم بستی کی رہائشی اور اسکا باپ محکمہ پولیس کا ریٹائرڈ ملازم ہے ساحل پولیس کا کہنا تھا کہ ابھی تک یہ تعین نہیں ہوسکا کہ مذکورہ لڑکی اس مقام پر کیسے آئی لڑکی جس جگی ڈوبی ہے وہاں سے مرکزی سڑک 10 منٹ کی دوری پر ہے جبکہ سارہ کے والد ابرار احمد نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ میں محکمہ پولیس کا ریٹائرڈ ملازم ہوں میرے پانچ بچے ہیں جن میں 23 سالہ سارہ ملک چوتھے نمبر پر تھی سارہ ملک عرصہ دو سال سے ڈیفنس نشاط کمرشل فیز 6 میں واقع RPK کیرئیٹر کیئر اینڈ اینیمل اسپتال میں کام کرتی تھی اور میری بیٹی سارہ گزشتہ ایک مہینہ سے اسپتال کے ڈاکٹر شان سلیم ولد سلیم مصطفی اور اسسٹنٹ بسمہ سے بہت پریشان تھی مورخہ 6جنوری 2023کو میری بیٹی سارہ اسپتال کام پر گئی لیکن پھر دوپہر کے وقت میری بیٹی نے اپنی ماں کو موبائل فون پر کال کی جس میں اس نے بتایا کہ میں اسپتال کے مالک ڈاکٹر شان اور اسسٹنٹ بسمہ سے بہت پریشان ہوں انھوں نے مجھ سے زیادتی کی ہے تو میری بیوی نے بیٹی سے کہا کہ تم پریشان نہ ہو اور واپس گھر آجاﺅ لیکن میری بیٹی واپس نہیں آئی تقریباً 4 بجے ڈاکٹر شان سلیم نے مجھے فون پر اطلاع دی کہ آپ کی بیٹی کا پرس اور جوتے وغیرہ ساحل سمندر سے ملے ہیں لیکن آپکی بیٹی لاپتہ ہے لہٰذا آپ کلاک ٹاور آجائیں اس اطلاع پر میں فوری کلاک ٹاور پہنچا وہاں ڈاکٹر سلیم پہلے سے موجود تھا میں اس کے ساتھ کنارہ ساحل ایوینیو فیز 8پہنچا تو دیکھا کہ وہاں کافی لوگ اور پولیس کی بڑی تعداد موجود تھی پولیس نے میری بیٹی سارہ ملک کا پرس جس میں اسکا اصل شناختی کارڈ ایک گھڑی میک اپ کا سامان اور جوتا وغیرہ تھا مجھے دیا معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ سوا تین بجے کے قریب جائے وقوعہ سے یہ سامان ملا ہے جوکہ میری بیٹی کا تھالیکن میری بیٹی لاپتہ ہے ہم لوگوں نے اپنے طور پر بھی اسے تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن اسکا پتہ نہیں چل سکا اب رپورٹ میں آیا ہے کہ میرا قوی شبہ ہے کہ ڈاکٹر شان سلیم نے مسما ةبسمہ اور اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کسی نامعلوم وجوہ کے بنا پر میری بیٹی سارہ ملک کو اغواءکیا ہے جس کے بعد پولیس نے ڈاکٹر شان سلیم مسماة بسمہ اور دیگر کے خلاف مقدمہ الزام نمبر 9/2023بجرم دفعہ 365/34 کے تحت درج کرکے اسپتال کے ڈاکٹر سلیم اور بسمہ کو گرفتار کرلیا جبکہ غوطہ خوروں کی مدد سے سمندر میں سارہ ملک کی تلاش جاری رکھی تاہم واقعہ کے دو روز بعد اتوار کی صبح ایدھی فاونڈیشن کے غوطہ خوروں نے سمندر سے سارہ کی نعش نکال لی اور قانونی کارروائی کیلئے نعش کو جناح اسپتال منتقل کیا پولیس حکام کا کہنا تھا کہ دوران تفتیش ایسے شواہد ملے ہیں

کہ لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے تاہم پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد ہی وجہ موت کا تعین اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کے حوالے سے حتمی طور پر بتایا جاسکے گا لڑکی کے اہلخانہ کے مطابق واقعہ خودکشی کا نہیں بلکہ قتل کا ہے اس انکشاف کے بعد پولیس نے تفتیش کا دائرہ وسیع کردیا دوران تفتیش پولیس کو سی ڈی آر ڈیٹا سے مزید شواہد مل گئے پولیس کو اسپتال سے سی سی ٹی وی فوٹیج ملی جس میں واقعہ سے قبل سارہ کو اسپتال سے نکلتے ہوئے دیکھا گیا اور اسی وقت ایک اور لڑکی کو اسپتال سے نکل کر سارہ کے پیچھے جاتے اور سارہ کو روکتے ہوئے دیکھا گیا جس پر یہ سمجھا گیاکہ ملزمہ بسمہ متوفیہ سارہ کو روکنے کی کوشش کررہی ہے لیکن جب غور کیا گیا تو وہ ملزمہ بسمہ نہیں بلکہ اسپتال کی ریسپسنسٹ ارادھنا تھی پولیس نے ارادھنا اور مددگار 15 کو کال کرنے والا عینی شاہد جمال کا بیان ریکارڈ کرکے انہیں بھی شامل تفتیش کرلیا ارادھنا نے پولیس کو بیان دیا کہ واقعہ والے روز ملزم شان سلیم اور متوفیہ سارہ سلیم کے درمیان جھگڑا ہوا تھا تو وہ سارہ کو تسلی دینے کیلئے اسے اسپتال سے باہر لے گئی اور سارہ ملک کو اس نے اسپتال کے باہر چھوڑا جس کے بعد مجھے نہیں معلوم کہ وہ کہاں گئی دوسری سی سی ٹی وی فوٹیج میں سارہ ملک اسپتال کے باہر سے رکشے میں بیٹھتے ہوئے نظر آتی ہے اس کے بعد سارہ کہاں گئی پولیس تحقیقات کررہی ہے ادھر ایس پی انویسٹی گیشن ساﺅتھ زاہدہ پروین کا کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے پر ہی حقائق سے پردہ اٹھے گا اور پولیس کی تفتیش میں مزید پیش رفت ہوسکے گی ایس پی انویسٹی گیشن کے مطابق جمعہ کے روز سارہ ملک کا اسپتال جانا اور پھر وہاں سے چلے جانا پھر اسکے بعد پولیس مددگار15 کو کال آنا اور اتوار کو سمندر سے لڑکی کی نعش ملنا یہ معاملہ فوری حل طلب ہے اور پولیس اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کررہی ہے جبکہ متوفیہ کے چچا نثار احمد نے بتایا کہ واقعہ کے بعد ہمارے کچھ بچے اسپتال گئے تھے اور انہوں نے ڈیٹاڈیلیٹ ہونے سے پہلے کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی جس میں بھتیجی سارہ کو پریشانی کی حالت میں اسپتال سے نکلتے ہوئے دیکھا ہے اس وقت بھتیجی رو رہی تھی لیکن بعد میں جب پولیس اسپتال پہنچی تو اس سے پہلے ہی اسپتال انتظامیہ کی جانب سے سارہ ڈیٹا ڈیلیٹ کیا جاچکا تھا اور یہ بات وثوق سے کی جاسکتی ہے کہ واقعہ خودکشی کا نہیں بلکہ قتل کا ہے متوفیہ کے چچا نے مزید بتایا کہ ان کی بھتیجی کو سو فیصد قتل کیا گیا ہے ایس ایس پی ساﺅتھ سید اسد رضا کے مطابق 7 جنوری کی رات پولیس ڈیفنس میں واقع P.R.K جانوروں کے اسپتال پر چھاپہ مارا جہاں متوفیہ سارہ کام کرتی تھی اس چھاپے کے دوران ملزم ڈاکٹر شان سلیم اور عملے کے ایک شخص کو گرفتار کیا گیاجبکہ متوفیہ کے والد ابرار احمد کی شکایت پر ساحل پولیس نے مقدمہ الزام نمبر9/2023درج کرلیا ہے ایس ایس پی ساﺅتھ کا کہنا تھا کہ 23سالہ لڑکی نے 6 جنوری کو فرحان شہید پارک کے قریب سی ویو پر سمندر میں چھلانگ لگادی تھی لڑکی کی نعش دو روز بعد برآمد کرلی گئی اور ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آی ہے کہ متوفیہ جس اسپتال میں کام کرتی تھی اس اسپتال کا مالک ویٹنری ڈاکٹر شان سلیم نے متوفیہ کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا ایس ایس پی ساﺅتھ سید اسد رضا نے مزید بتایا کہ دوران تفتیش ملزم ڈاکٹر کے کمرے سے ٹشو، بال اور مانع حمل ادویات برآمد ہوئی ہیں گرفتار ملزم کو اغواءاور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ میں نامزد کیا گیا ہے جبکہ ساحل تھانے کے ایس آئی او اصغر بروہی کے مطابق گرفتار ملزم شان نے اپنا ابتدائی بیان دیتے ہوئے پولیس کو بتایا کہ متوفیہ سارہ ملک گزشتہ دو سالوں سے ایم آر جی اسپتال میں اس کے ساتھ ہی کام کررہی تھی اور سارہ ملک سے اسکے دو سال سے تعلقات تھے اس دوران اسپتال میں ایک اور اسسٹنٹ بسمہ کا اضافہ ہوگیا تو بسمہ سے بھی میرے تعلقات ہوگئے اور اس بات کا سارہ کو بھی پتہ چل گیا جس کی وجہ سے میرا اور سارہ ملک کا کچھ روز سے جھگڑا چل رہا تھا سارہ ملک جمعہ کو اسپتال آئی اور کچھ دیر بعد چلی گئی اسپتال کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں نے ہی اسپتال کے عملے سے ڈیلیٹ کرواتھی ایس آئی او اصغر بروہی نے مزید بتایا کہ تحقیقات کے دوران واقعہ خودکشی نہیں بلکہ قتل کا نکلا ہے

جبکہ ایس پی انویسٹی گیشن ساﺅتھ زاہدہ پروین نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور متوفیہ سارہ ملک کی پوسٹ مارٹم سے متعلق لیڈی ایم ایل او سے ملاقات کی جس پر لیڈی ڈاکٹر نے کیس کی تفتیش اور میڈیکل رپورٹ کی روشنی پر انہیں آگاہ کیا ایس ایس پی انویسٹی گیشن زاہدہ پروین کا کہنا تھا کہ ایم ایل او ڈاکٹر نے بتایا کہ لڑکی کی نعش دو دن پرانی نہیں بلکہ صرف تین سے چار گھنٹے پرانی ہے اور نعش ملنے کی اطلاع ڈی ایچ اے ویجیلینس ٹیم نے ریسکیو ادارے کو دی تھی نعش کا معائنہ کرنے سے وہ دو دن پرانی نہیں لگتی ایم ایل او کے اس انکشاف کے بعد خودکشی قتل کی تحقیقات میں تبدیل ہوگئی ہے پولیس کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر ڈوبنے والی ڈاکٹر سارہ کے کیس میں اہم پیشرفت ہوہے ایس پی انویسٹی گیشن کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد پولیس لڑکی کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم تک پہنچ جائے گی مددگار 15کو کال اور اور اسپتال کے عملے سمیت جو بھی تفتیش میں سامنے آرہی ہے پولیس اسے شامل تفتیش کررہی ہے تاکہ حقائق تک پہنچا جائے تاہم موت کی اصل وجہ تفصیلی میڈیکل رپورٹ آنے کے بعد ہی پتہ چلے گی ایس پی نے بتایا کہ دو روز قبل عینی شاہد جمال نے جو بیان دیا اس میں بھی تضاد پایا گیا ہے جمال نے پولیس کو جس مقام کی اطلاع دی تھی وہاں سے دو روز تک متوفیہ کی نعش نہیں ملی جمال نے ایسا بیان کیوں دیا اور اسکا اس کیس سے کیا کنکشن ہے تفتیش کا عمل جاری ہے جبکہ نعش ملنے کی اطلاع ریسکیو ادارے کو ڈی ایچ اے ویجیلینس ٹیم نے دی تھی اور پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ میں لیڈی ایم ایل نے بتایا کہ لڑکی کی نعش تین سے چار گھنٹے پرانی ہے جبکہ سارہ کا سمندر میں کودنے کا واقعہ دو روز پرانا ہے اس انکشاف نے تفتیش کا رخ تبدیل کردیا ہے لیکن پولیس تفصیلی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار کررہی ہے تاہم سٹی کورٹ میں جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی مظہر علی کی عدالت میں سی ویو دو دریا سے لڑکی سارہ کی نعش ملنے سے متعلق مقدمہ کی سماعت ہوپولیس نے ملزم ڈاکٹر شان سلیم کو جوڈیشل مجسٹریٹ مظہر علی کے روبرو پیش کرتے ہوئے اپنی ابتدائی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی تفتیشی افسر نے بتایا کہ مقدمہ میں قتل کی دفعات کا اضافہ کیا گیا اور مقتولہ سارہ کا پوسٹ مارٹم مکمل کرلیا گیا مقدمہ میں ویٹنری ڈاکٹر شان سلیم کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ملزم کے موبائل فون کا فارنزک کیا جارہا ہے فی الحال مقدمہ میں نامزد ملزمہ بسمہ کو گرفتار نہیں کیا گیا عدالت نے ملزم شان سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں معاملہ کیا ہے جس پر ملزم نے بتایا کہ سارہ ہمارے اسپتال میں کام کرتی تھی اور وقوعہ والے روز مقتولہ اسپتال سے اکیلے نکلی تھی اور مجھے جھوٹے مقدمے میں پھنسایا جارہا ہے جبکہ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ عینی شاہد کے مطابق لڑکی سمندر کنارے اکیلے بیٹھی رورہی تھی عینی شاہد کے مطابق واقعہ تین روز پرانا ہے لیکن لڑکی کی نعش دیکھنے پر وہ تین دن پرانی نہیں لگتی اور اب پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ہی صورتحال واضع ہوسکے گی عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ آپ کو اس مقدمہ میں کیا لگتا ہے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ اسپتال میں دو لڑکیاں کام کرتی تھی اور ابتدائی تفتیش کے مطابق مقتولہ اسپتال سے غصے سے نکلی تھی ممکن ہے کہ حسد بنیادی وجہ ہوسکتی ہے پولیس نے عدالت سے ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ملزم سے تفتیش اور سی آر او کیلئے جسمانی ریمانڈ دیا جائے جس پر عدالت نے ملزم ڈاکٹر شان سلیم کو 5 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ پیش کرنے کا حکم صادر فرمایا۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
Exit mobile version