Qaumi Akhbar

ارشد شریف قتل کی کینیا میں تحقیقات

گاڑی پر فائرنگ کینیا کی پولیس نے کی اس بات سے ہم لاعلم تھے، وقار احمد اور خرم کا بیان

ڈائریکٹر ایف آئی اے اکیڈمی اطہر وحید اور ڈپٹی ڈائریکٹر آئی بی عمر شاہد حامد نے تمام مقامات کا جائزہ لیا

گاڑی پر اچانک گولیاں چلنے پرگھبرا یا، بھائی وقار کو فون کیا، فائرنگ کے بعد بھی تعاقب کا احساس ہوا، خرم احمد

جس لاج میں ارشد شریف اور ان کے دوستوں نے ڈنر کیا تھا وہاں سی سی ٹی وی کیمرے نہ ہونے کا انکشاف

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) ارشد شریف قتل کیس میں ڈائریکٹر ایف آئی اے اکیڈمی اطہر وحید اور ڈپٹی ڈائریکٹر آئی بی عمر شاہد حامد پر مشتمل دو رکنی ٹیم کی کینیا میں تحقیقات جاری ہیں۔ذرائع کے ٹیم نے کینیا میں جائے وقوع، فارم ہاو¿س اور واقعہ سے قبل ارشد شریف کے آخری ڈنر کے مقام کا جائزہ لیا۔ تحقیقاتی ٹیم نے کینیا حکام کے ساتھ فائرنگ سے متاثرہ گاڑی کا بھی جائزہ لیا اور اس پر لگنے والی گولیوں کے نشانات وغیرہ کا باریک بینی سے جائزہ لے کر نوٹس لیے جس کے بعد تحقیقاتی ٹیم نے خرم احمد اور وقار احمد سے تفصیلی پوچھ گچھ کرتے ہوئے مختلف زاویوں سے سوالات کیے۔ذرائع کے مطابق تحقیقاتی ٹیم نے خرم احمد سے فائرنگ اور فائرنگ کے بعد صورتحال سے متعلق سوالات کیے۔ جواب میں خرم احمد کا کہنا تھا کہ گاڑی پر اچانک گولیاں چلنے پر وہ گھبرا گیا اور فوری طور پر بھائی وقار احمد کو فون کیا جس کے دوران بھی ایسا لگا کے فائرنگ کے بعد بھی تعاقب کیا جارہا ہے جس پر میں نے گاڑی اور بھگانا شروع کردی، بھائی نے فوری طور پر فارم ہاو¿س پر پہنچنے کا کہا جو جائے وقوع سے تقریباً 22 کلو میٹر دور تھا۔ذرائع کے مطابق وقار احمد نے موقف اختیار کیا کہ بھائی کی کال ملنے پر خود بھی فارم کی طرف نکل گیا اور راستے میں کینین پولیس اور پاکستانی دوست کو فون کرکے تفصیل بتائی، جب وہاں پہنچا تو ارشد شریف کی لاش گاڑی میں موجود تھی۔وقار احمد نے بتایا کہ ہمیں اس وقت تک شک یا علم نہیں تھا کہ گاڑی پر فائرنگ پولیس نے تاہم میرے پہنچنے کے بعد کینین پولیس حکام بھی وہاں پہنچ گئے اور شواہد جمع کیے۔ذرائع کے مطابق پاکستانی تحقیق کاروں نے مصنوعی طور پر جائے وقوع تشکیل دے کر تحقیقات کی روشنی میں پورے واقع کی فرضی مشق کرکے بھی نوٹس لیے۔ذرائع کے مطابق تحقیقات کے دوران انکشاف سامنے آیا کہ جس لاج میں ارشد شریف اور دوست نے ڈنر کیا وہاں سی سی ٹی وہ کیمرے نہیں تھے جبکہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ لاج کے علاقے میں بجلی کا انتظام بھی جنریٹر یا متبادل نظام سے کیا جاتا ہے۔اسی طرح پاکستان تحقیقاتی ٹیم کو کینین پولیس حکام کی جانب سے بھی معلومات فراہم کی گئیں۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
Exit mobile version