Qaumi Akhbar

کراچی پولیس چیف ایکشن میں؟

خبردار: کراچی پولیس جدید ٹیکنا لوجی سے لیس ہوچکی،

گاڑی پر لگی جعلی نمبر پلیٹ کی خود کار نظام نشاندہی کرے گا،

موٹر سائکل یا ڈمپرز کے حادثات کی شرح میں بھی کمی آئی ہے،

اسٹریٹ کرائم کاجن بھی ایک حد تک بوتل میں بند،

اب کراچی سے رجسٹرڈ گاڑیاں ہی شہر کی سڑکوں پر چلیں گی،

شہر کی ٹوٹی سڑکیں بھی ٹریفک حادثات کی ایک وجہ ہیں،

ایڈیشنل آئی جی جاوید عالم اوڈھو کی سینیر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو،

کراچی (آغاخالد)
ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو نے کہاہے کہ ہماری پولیس نے یہ سسٹم حاصل کرلیا ہے کہ شہر میں ایک ہی نمبر پلیٹ سے چلنے والی دو گاڑیوں کی نشاندہی خود کار نظام کے تحت ہو جاتی ہے اور یہ بھی پتہ چل سکتاہے کہ ایک ہی نمبر کی ایک گاڑی شاہراہ فیصل پر چل رہی ہے تو دوسری سہراب گوٹھ پر موجود ہے اس سے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں سمیت بیرون شہر سے کراچی میں کوئی بھی چھینی یا چوری کی گاڑی داخل ہوگی تو بھی اس کی نشاندہی ہوجائے گی اس نظام سے بہت جلد گاڑیوں کی چوری یا چھننے کی وارداتوں پر بھی قابو پا لیا جائے گا کیونکہ اب کراچی پولیس کو سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں پر لگی نمبر پلیٹ کی کنٹرول روم نشاندہی کرے گا کہ یہ نمبر پلیٹ اس گاڑی کی اپنی ہے یا جعلی گزشتہ روز جاوید عالم اوڈھو اپنے دفتر کے پی او میں سینیر صحافیوں کے ایک گروپ سے غیر رسمی بات چیت کرہے تھے جبکہ اس موقع پر کے پی او کے ترجمان ریحان خان بھی موجود تھے، دراز قد اور بھاری جسم کے ساتھ متوازن گفتگو کے ماہر سینیر پولیس افسر نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوے کہاکہ وہ زمانہ طالب علمی میں کراچی کی مسافر بسوں میں سفر کرتے رہے ہیں اس لیے عام آدمی کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں، اوڈھو نے دعوا کیا کہ ڈمپر یا بڑی گاڑیوں سے موٹر سائکل حادثات پر بھی بڑی حدتک قابو پا لیاہے تاہم اس کے مستقل حل کی خاطر دور رس اقدامات جاری ہیں اور انشااللہ جلد ایسے واقعات قصہ پارینہ بن جائیں گے، ایڈیشنل آئی جی نے کہاکہ کراچی ملک کا سب سے بڑا اور گنجان آبادی والا شہر ہے جس میں گونہ گوں مسائل سر اٹھاتے رہتے ہیں تاہم انہوں نے کراچی کے شہریوں کو مخاطب کرکے کہاکہ پولیس یا امن و امان سے متعلق ادارے اپنی جبلی کمزیوں کے باوجود ان کے مسائل کے حل میں سنجیدہ اور دن رات کوشاں ہیں ہمارے مشاورتی گروپس (تھینک ٹینکس) ان مسائل پر نظر رکھے ہوے ہیں اور وہ مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ان کے حل کی تجاویز بھی وقتا فوقتا حکومت کو دیتے رہتے ہیں کراچی پولیس کے سربراہ سے ملنے والے سینیر صحافیوں میں پی ایف یو جے کے سابق سیکریٹری جنرل خورشید عباسی اور کراچی پریس کلب کے سابق صدر امتیاز خان فاران شامل تھے جنہوں نے پولیس چیف سے بعض مشکل اور سخت سوالات بھی کیے جن کے جواب عالم اوڈھو نے خندہ پیشانی سے دئے ایک اور سوال پر اوڈھو نے مثال دیتے ہوے کہاکہ کراچی میں کرائے گئے متعدد سروے رپورٹس کے مطابق شہر میں حادثات کی 3 اہم وجوہ سامنے آئی ہیں پہلی گاڑیوں کی عدم فٹنس دوئم کمرشل گاڑیوں کی خصوصا ٹرالرز اور ڈمپرز کی غیر متوازن باڈیز تیسری وجہ لوگوں کا ٹریفک قوانین کی مسلسل خلاف ورزیاں اور اس میں 60 سے 80 فیصد موٹر سائکل سواروں کی لا پرواہی عدم ترتیب اور ٹریفک قوانین سے لاعلمی شامل ہیں انہوں نے پورے یقین کے ساتج کہا کہ ہم نے فٹنس کا مسلہ اس طرح حل کیا ہے کہ فٹنس فیس کی شرح میں حکومت سے بڑی کمی کروائی ہے ورنہ ہوتا یہ تھا کہ کراچی سمیت پورے صوبہ کی سڑکوں پر دندناتی 90 فیصد کمرشل گاڑیاں لسبیلہ بلوچستان سے رجسٹر ہوتی تھیں کیونکہ وہاں کی رجسٹریشن فیس سندھ سے بہت کم ہے جس پر ہماری تجاویز پر سندھ حکومت نے رجسٹریشن فیس لسبیلہ کے برابر کردی ہے پھر بعض مشکوک کیسز میں رجسٹریشن ریکارڈ کی لسبیلہ سے آن لائن تصدیق میں کئی ماہ لگ جاتے تھے اب کراچی کی سڑکوں پر باقاعدگی سے وہی گاڑیاں چلیں گی جو سندھ ایکسائز سے رجسٹر اور تصدیق شدہ فٹنس کے ساتھ ہوں گی دوسرا کمرشل گاڑیوں کو مسلسل تنبیہ کی جارہی ہے کہ اس کے مالکان باڈی اس طرح بنوائیں کہ موٹر سائکل یاچھوٹی گاڑی حادثہ کی صورت میں ان کے نیچے آکر کچلی نہ جائے بلکہ جاپانی کاروں کی طرح ان کی باڈی کی تکمیل اس طرح کی جائے کہ خدا نہ خواستہ ٹکر کی صورت میں گاڑی ان کی باڈی کے نیچے نہ آسکے تاہم تیسرے مسلہ کی نشاندہی سے قبل وہ خاصے محتاط ہوگئے اور انہوں نے مسلہ کی نشاندہی سے قبل خاصی طویل تمہید باندھی اور کہاکہ کراچی مختلف زبانوں و تمدن کا ایسا شہر ہے جس کی آبادی دنیا کے بیسیوں ممالک سے زیادہ ہے اور ہم نے ستر بہتر سالوں میں یہ ترقی کی ہے کہ ہم سب کچھ بن گئے مگر پاکستانی نہ بن سکے اس لیے ہر مسلہ کو تمام رہائشی شہری عصبیت کے چشمہ سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں اس لیے یہ انتہائی بد قسمتی کی بات ہے کہ ہم ایک ذمہ دار عہدہ پر فائز ہیں مگر ایسے حساس مسائل کی نشاندہی کرتے ہوے ہمیں بھی نپے تلے لفظوں کا انتخاب کرنا پڑتاہے انہوں نے کہاکہ ٹریفک قواعد موجود ہیں مگر عمل کوئی نہیں کرتا اور قانون کی مسلسل خلاف ورزی کرنے والا بھی اپنی ہی کوتاہی سے حادثہ کا شکار ہونے کے بعد پولیس کو ذمہ دار ٹہراتا ہے اور حکومت پر ننگی تنقید کے تیر برسانا شروع کردیتا ہے حالانکہ اس شہر امان میں صرف موٹر سائکل سوار ٹریفک قوانین پر گر عمل در آمد کا فیصلہ کرلیں تو 80 فیصد مسائل حل ہوسکتے ہیں، اپنی متاثر کن شخصیت کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوے انہوں نے پورے وثوق سے کہاکہ یہ مسائل بھی بہر حال حل ہونے جارہے ہیں ڈی آئی جی ٹریفک اس سلسلہ میں بہت محنت کرہے ہیں انہوں نے کچھ عرصہ قبل بلدیہ ٹائون کی سڑک پر ہونے والے درد ناک حادثہ کا ذکر کرتے ہوے دکھی لہجہ میں کہاکہ ایک موٹر سائیکل سوار سڑک پر پڑے گڑھے سے لگنے والے جنمپ سے سنبھل نہ سکا اور اس کی موٹر سائکل کے پیچھے بیٹھی خاتون کی گود میں شیر خوار اچھل کر سڑک پر گرا اور پیچھے سے آنے والی بڑی گاڑی اس پر چڑھ گئی اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک دل دہلادینے والا درد ناک حادثہ تھا مگر رائج ٹریفک قوانین کی رو سے اس میں بڑی گاڑی والا قصور وار نہ تھا مگر عوامی دبائو اور اس میں لسانی عصبیت کے عنصر سے انتظامیہ دبائو میں آگئی اور بڑی گاڑی کو بند کرنا پڑا انہوں نے تسلیم کیاکہ کراچی میں ٹریفک حادثات کی ایک بڑی وجہ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں بھی ہیں تاہم انہوں نے پورے عزم سے کہا کہ کراچی پولیس عوام کی حفاظت کے لیے 24 گھنٹے الرٹ رہتی ہے یہی وجہ ہے اسٹریٹ کرائم کے جن کو بھی شہری پولیس بوتل میں بند کرنے میں ایک حد تک کامیاب ہوگئی ہے۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
Exit mobile version