
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور 30 گھنٹے کی پراسرار گمشدگی کے بعد ڈرامائی طور پر صوبائی اسمبلی پہنچ گئے۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی گمشدگی کے باعث خیبرپختونخوا اسمبلی کا آج طلب کیا گیا ہنگامی اجلاس پانچ گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا، جس میں علی امین گنڈاپور کی گمشدگی سے متعلق قرارداد منظور کی گئی۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان احتجاج کرتے ہوئے خیبرپختونخوا اسمبلی میں داخل ہوگئے۔
پی ٹی آئی کارکنان وزیر اعلیٰ کی بازیابی کیلئے احتجاج کرتے ہوئے اسمبلی میں داخل ہوئے اور ہال میں شدید نعرہ بازی کی، کارکنان نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی سمیت ایک ریاست دو دستور کے نعرہ لگائے۔
گنڈا پور کی مبینہ گمشدگی اور کے پی ہاؤس پر دھاوے کے خلاف قرار داد
دوران اجلاس صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم کی جانب سے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی مبینہ گمشدگی اور کے پی ہاؤس پر دھاوے کے خلاف قرار داد پیش کی گئی جو بھاری اکثریت سے پاس کی گئی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ اسپیکر تمام اداروں سے وزیر اعلیٰ کی مبینہ گمشدگی سے متعلق رپورٹ طلب کریں۔
جس پر اسپیکر صوبائی اسمبلی بابر سلیم سواتی نے آئی جی پولیس، چیف سیکرٹری اور پرنسپل سیکرٹری کو کل طلب کرلیا۔
وزیراعلیٰ گمشدگی اور خیبرپختونخوا ہاؤس واقعہ بارے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان
اسپیکر نے وزیراعلیٰ کی گمشدگی اور خیبرپختونخوا ہاؤس واقعہ کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کردیا۔ اسپیکر صوبائی اسمبلی نے ایڈووکیٹ جنرل اور وزیر قانون سے اس بارے میں رائے طلب کرلی۔
اسپیکر بابر سلی سواتی نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن اراکن کو شامل کریں گے، ممبران کمیٹی بعد میں نوٹیفائی کریں گے، کمیٹی ایک ٹایم فریم کے اندر رپورٹ جمع کرے گی، کمیٹی ممبران وڈیوز بھی دیکھ لیں لوگوں کے انٹرویوز کرلیں۔
اسپیکر نے کہا کہ انسپکٹر جنرل اسلام آباد اور آئی جی رینجر کے پی ہاؤس حملے کی تحقیقات کریں گے، کمیٹی کے پی ہاؤس میں توڑ پھوڑ کی تحقیقات کرے گی۔
بابر سلی سواتی نے کہا کہ میرا اپنا بیٹا خود وہاں موجود تھا، انہوں نے مجھے سب کہانی سنائی ہے۔
اسمبلی اجلاس میں تاخیر کیوں ہوئی؟
خیبرپختونخوا اسمبلی کا ہنگامی اجلاس تاخیر سے شروع ہونے کی وجوہات سامنے آگئی ہیں، اسپیکر وزیر اعلیٰ کا پراڈکشن آرڈر جاری کرنے پر بضد ہیں، لیکن اسمبلی سیکرٹریٹ تذبذب کا شکار ہے۔
اسمبلی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پراڈکشن آرڈر کس کو جاری کریں، آئی جی اور چیف سیکریٹری خود لاعلم ہیں، انتظامیہ اور پولیس سے کیسے پوچھا جاسکتا ہے۔
جس کے بعد اسپیکر نے ایڈووکیٹ جنرل اور قانونی ماہرین کو طلب کرلیا، سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصربھی صوبائی اسپیکر سے مشاورت کر رہے ہیں۔
کے پی ہاؤس کی مثال کسی ملک کی ایمبیسی جیسی ہے، ایڈووکیٹ جنرل
خیبرپختونخوا اسمبلی کے اجلاس میں ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل سے اسپیکر نے سوال کیا کہ ہمیں کے پی ہاؤس کا اسٹیٹس بتائیں اور آرٹیکل 149 کا بھی بتائیں۔
جس پر اے جی شاہ فیصل نے کہا کہ قانون کےمطابق کوئی شخص بغیر اجازت کے کسی بھی ہاوس میں داخل نہیں ہوسکتا، بلوچستان ہاؤس، کے پی ہاؤس ہو یا سندھ ہاؤس،م اجازت کےبغیر کوئی داخل نہیں ہوسکتا، اگر کوئی بغیر اجازت کے داخل ہوتا ہے تو وہ غیرقانونی ہوگا، کے پی ہاؤس کی مثال کسی ملک کی ایمبیسی جیسی ہے، جیسے کسی ملک کی ایمبسی میں بغیر اجازت داخل نہیں ہو سکتے ایسے ہی کے پی ہاؤس میں بھی کوئی بغیر اجازت داخل نہیں ہو سکتا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ چیف سیکرٹری اس قابل نہیں کہ اسے 149 آرٹیکل کے تحت اختیار دیا جائے۔
پارلیمانی پارٹی کا اہم اجلاس
خیبرپختونخوا کے ہنگامی اسمبلی اجلاس سے قبل پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا اہم اجلاس بھی ہوا، جس میں اراکین اسمبلی سرجوڑ کر بیٹھے اور اہم فیصلے کئے گئے۔
پارٹی ذرائع کے مطابق پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں متفقہ قرارداد پر بحث ہوئی جو اسمبلی میں پیش کی جائےگی، اجلاس میں آئندہ کے لائحہ عمل پر بھی غور کیا گیا۔ اسمبلی اجلاس میں اراکین کی تقریر کے بعد قرارداد پیش کی جائے گی۔
پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اسپیکر کو اپنے اختیارات استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
’وزیراعلیٰ کی جبری گمشدگی کا براہ راست ذمہ دار وزیر داخلہ محسن نقوی ہیں‘
مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ کی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی گمشدگی کے بارے میں لاعلمی ڈرامہ بازی کے سوا کچھ نہیں، وزیراعلیٰ کی جبری گمشدگی کا براہ راست ذمہ دار وزیر داخلہ محسن نقوی ہیں۔ پتا نہیں یہ کن لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ کے خیبر پختونخوا ہاﺅس میں آنے کا ٹائم سرکل کرکے دکھایا گیا، جانے کا کہاں ہے؟ وزیر اعلیٰ کے کپڑے بھی تبدیل ہو گئے؟ وہ باہر کھڑی رینجرز اور اسلام آباد پولیس کہاں گئی؟جاتے ہوئے وہ میڈیا کو بھی نظر نہیں آئے؟
’گنڈاپور پہلے بھی غائب ہوئے تھے‘
اس دوران اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللہ نے اپوزیشن چیمبر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور پہلے بھی غائب ہوئے تھے، پہلے جب غائب ہوئے تھے تب بھی اس بارے میں نہیں بتایا تھا، 8 گھنٹے پہلے بھی علی امین گنڈاپور غائب رہے، وزیراعلیٰ کو کسی نے بھی گرفتار نہیں کیا، اب یہ وزیراعلیٰ کہاں بیٹھے ہیں کسی کو نہیں معلوم، جو ڈرامہ پہلے ہوا اب بھی ویسے ہی جاری ہے۔
ڈاکٹر عباد اللہ نے کہا کہ اپنے ورکروں کو چھوڑ کر علی امین خیبرپختونخوا ہاؤس چلے گئے، ورکروں کو چھوڑ کر کہیں جا کر کیک پیسٹری کھاتے رہے، میں اس میں کیا مذمت کروں پیسٹری کیک کھانے کی مذمت کروں؟
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ اسمبلی اجلاس پیر 7 اکتوبر تک ملتوی کیا گیا تھا،آج چھٹی کے دن اچانک اجلاس بلوانے کا کیا مقصد ہے پوچھا جائے گا، یہاں صرف پی ٹی آئی ہی کے ایشو ہیں عوامی ایشو نہیں ہیں کیا؟
انہوں نے کہا کہ صوبے کو چھوڑیں اپنے حلقے کو تو وزیراعلیٰ پہلے سنبھالیں، کیا چیف ایگزیکٹو ایسے ہوتے ہیں جو کہتے ہیں گولی کا جواب گولی سے، پتھر کا جواب پتھر سے، جب کوئی انٹرنیشنل وفد پاکستان میں ہو اور ڈی چوک پر مظاہرے ہوں تو ہم کیا پیغام دے رہے ہیں۔
’فیصلہ کیا ہے کہ ہمارا احتجاج جاری رہے گا‘
پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے خیبرپختونخوا اسمبلی کے باہر میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ہم کل احتجاج میں میڈیا پر تشدد کی مذمت کرتے ہیں، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی وزیراعلیٰ کو غائب کیا جائے، کے پی ہاؤس میں تھوڑ پھوڑ کی گئی، کل جو ہوا ہم اس پر احتجاج کرتے ہیں۔
اسد قیصر نے مطالبہ کیا کہ علی امین گنڈاپورکو سامنے لایا جائے، یہ علی امین پر حملہ نہیں خیبرپختونخوا پر حملہ ہے، ہم پیچھے نہیں ہوں گے اور کسی بھی حد تک جائیں گے۔
اسد قیصر نے کہا کہ فارم47 کی پیدا وار کو قانون سازی کا کوئی حق نہیں، ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہمارا احتجاج جاری رہے گا، اہم پر امن طور اپنی جدوجہد کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ایم این ایز کو زبردستی پریشر میں نہ لایا جائے، ہم نے فیصلہ کیا ہے کے کسی بھی قانون سازی اور اسٹیڈنگ کمیٹی میں بھی پیش نہیں ہوں گے، فیصلہ کیا ہے جماعتی اسلامی کی اسرائیل مظالم کے خلاف احتجاج کی حمایت کریں گے، اگر اسرائیل کے ظلم کے حوالے سے سیشن ہوا تو اس میں شریک ہوں گے، اگر ہم کھڑے نہیں ہوئے تو کسی کے بھی حقوق کا تحفظ مشکل ہوگا۔
انہوں نے اعلان کیا کہ علی امین گنڈا پور کو چوبیس گھنٹوں میں رہا نہیں کیا گیا تو ملک گیر احتجاج کریں گے۔