
منگل کو پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے بظاہر سکیورٹی امور پر کی جانے والی پریس کانفرنس نے ملک کی سیاسی صورتحال پر اس وقت گہرے اثرات چھوڑے جب ان سے پی ٹی آئی اور فوج کے درمیان تعلقات کے حوالے سے کسی ممکنہ ’مفاہمت‘ کے بارے میں سوال کیا گیا۔
اس پر ان کی جانب سے اس معاملے پر نہ صرف نفی میں دیے گئے جواب بلکہ پی ٹی آئی کو ’اپنی ہی فوج پر حملہ آور ہونے والے انتشاری ٹولے‘ سے تشبیہ دینے نے پی ٹی آئی اور اسٹیبشلمنٹ کے درمیان حائل فاصلوں کو واضح کیا ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ چند ہفتوں سے پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر پی ٹی آئی اور فوج کے درمیان ممکنہ مذاکرات کی چہ مگوئیاں جاری ہے اور پی ٹی آئی متعدد بار یہ کہہ چکی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی بجائے ’طاقتور حلقوں‘ سے مذاکرات کرنے کو تیار ہے۔
اس ضمن میں تو پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے گذشتہ دنوں اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو میں یہ تک کہہ دیا کہ انھوں نے عمر ایوب، شبلی فراز اور علی امین گنڈا پور کو مذاکرات کرنے کا اختیار دیا ہے۔ جبکہ کچھ پی ٹی آئی رہنما یہ دہراتے رہے ہی ںکہ عمران خان کی رہائی کے بغیر کسی سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
مگر آج جب فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف چوہدری سے پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی سے ممکنہ مذاکرات کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے واضح کیا ہے کہ ’اپنی ہی فوج پر حملہ آور انتشاری ٹولے سے کوئی بات چیت نہیں کرے گا۔۔۔ ایسے انتشاری ٹولے کے لیے صرف ایک راستہ ہے کہ وہ قوم کے سامنے معافی مانگے اور وعدہ کرے کہ وہ نفرت کی سیاست چھوڑ کر تعمیری سیاست میں حصہ لے گا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’بات چیت سیاسی جماعتوں کو زیب دیتی ہے۔ فوج یا ادارے بات چیت کریں، یہ بالکل مناسب نہیں۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرس پر ردعمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس ’انتشار سے بھرپور‘ تھی اور اس نے ریاست اور عوام کے بیچ تعلق کو نقصان پہنچایا ہے۔
جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے منگل کو اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد فوج کے ترجمان کے بیان پر تبصرہ نہیں کیا