
اسلام آباد: صدر مملکت پاکستان اور ملک کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر عارف علوی اُس صورتحال میں کہاں کھڑے ہیں کہ ان کی اپنی پارٹی دفاعی تنصیبات، عمارتوں، علامات یادگاروں پر حملوں میں ملوث ہے؟
پی ٹی آئی کے مظاہرین کی جانب سے 9؍ مئی کو مسلح افواج کی تنصیبات پر حملوں کے بعد، صدر مملکت پی ٹی آئی کی جانب سے پاک فوج کیخلاف کیے گئے اقدامات کی بجائے عمران خان کیلئے زیادہ پریشان نظر آئے۔ جس دن یہ واقعات پیش آئے اسے ’’یومِ سیاہ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
صدر مملکت کا ردعمل پاک فوج اور اس کے سربراہ کے رد عمل سے مختلف تھا۔ صدر مملکت کی رائے ہے کہ 9؍ مئی کے واقعات عمران خان کی گرفتاری کا ردعمل تھے جبکہ پاک فوج اور قومی سلامتی کمیٹی کی رائے ہے کہ یہ حملے پہلے سے طے شدہ منصوبے کا حصہ تھے۔
دو دن تک صدر مملکت خاموش رہے اور 11؍ مئی کو بیان جاری کیا۔ اپنی ٹوئیٹ میں انہوں نے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری اور ان کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے رد عمل میں پیش آنے والے واقعات اور ملک کی صورتحال پر انہیں دکھ اور افسوس کے ساتھ صدمہ ہوا ہے، اس رد عمل میں انسانی جانوں کا نقصان دل توڑ دینے والا، افسوس ناک اور بد قسمتی ہے اور یہ انتہائی قابل مذمت ہے۔
احتجاج ہر شہری کا آئینی حق ہے لیکن یہ قانون کے دائرے میں ہونا چاہئے۔ جس طرح شر پسند عناصر نے سرکاری املاک بالخصوص سرکاری و فوجی عمارتوں کو نقصان پہنچایا وہ قابل مذمت ہے۔ دھونس دباؤ اور گرفتاریوں کی بجائے ہمیں سیاسی معاملات پر نظر ثانی کرنا چاہئے۔
میں نے اپنی تشویش سے سیاسی و فوجی قیادت کو آگاہ کر دیا ہے اور امید ہے کہ صورتحال بہتر ہوگی۔ میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ پر امن رہیں۔ عارف علوی پر حکمران اتحاد اور میڈیا کے لوگوں نے الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے کٹر کارکن کی طرح صدر مملکت کے عہدے کو نقصان پہنچایا ہے، 9 مئی کے واقعات کے بعد پہلا رد عمل عمران خان کے حق میں اور ہمدردانہ تھا۔
انہوں نے پی ٹی آئی والوں کی جانب پاک فوج کو پہنچائے جانے والے نقصان پر کوئی بات نہیں کی۔ اس کی بجائے ان کا جواب تھا کہ یہ عمران خان کی گرفتاری کا رد عمل تھا۔ اسی دن انہوں نے وزیراعظم کو خط لکھ کر ان کی توجہ عمران خان کی گرفتاری پر مبذول کرائی اور کہا کہ وہ اور پاکستان کے عوام عمران خان کی گرفتاری کے مناظر دیکھ کر حیران و پریشان ہیں کہ سابق وزیراعظم کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے جو ایک مقبول رہنما اور سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور اس جماعت کی عوام کا ایک بڑا حصہ حمایت کرتا ہے۔
انہوں نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ جس طرح عمران خان کو گرفتار کیا گیا اس نے پاکستان کا عالمی سطح پر امیج تباہ کر دیا ہے، ان کی گرفتاری کی وجہ سے ہجوم نے سرکاری املاک بشمول فوجی عمارتوں کو نقصان پہنچایا۔ تاہم، انہوں نے پی ٹی آئی کے فوجی تنصیبات پر حملوں کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ ان اقدامات سے بھی پاکستان کا امیج تباہ ہوا ہے اور پاکستان اور پاک فوج کے دشمن خوش ہوئے۔
علوی نے وزیراعظم کو بتایا کہ وہ سرکاری املاک کے نقصان اور شر پسندوں کے اقدامات پر پریشان ہیں۔ تاہم انہوں نے ان کیخلاف کارروائی کا ذکر نہیں کیا۔ اس کی بجائے انہوں نے وزیراعظم سے اپیل کی کہ عمران خان کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونا چاہئے اور ان کی جان کی حفاظت کی جائے۔
بدھ کو صدر علوی نے پرنٹ میڈیا کیلئے ایک آرٹیکل تحریر کیا جس میں انہوں نے 9؍ مئی کے واقعات کے حوالے سے وفاقی صوبائی حکومتوں اور مسلح افواج کی رائے کو نظر انداز کردیا کہ یہ حملے پہلے سے طے شدہ منصوبے کا حصہ تھے۔ انہوں نے اپنے آرٹیکل میں سیاسی رہنماؤں کو غدار اور ریاست مخالف قرار دینے کی تاریخ دہرائی۔
ماضی کی مختلف مثالوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کوئی سیاسی جماعت پاکستان مخالف ہے اور نہ اس میں کوئی غدار ہے، سب نے ماضی میں زیادتیاں کی ہیں جن میں ایم آر ڈی بھی شامل ہے۔ جب تمام دروازے بند ہو جائیں تو غصہ اور اشتعال انگیزی ہی وہ واحد راستہ بچ جاتا ہے جو پورے قومی منظر نامے کو جان لیوا حد تک سرخ کر دیتا ہے۔
صدر مملکت نے تمام اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ وہ ʼدوبارہ سوچیںʼ۔ انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سمیت ہر سمت میں کئی لوگ ہیں، لیکن روزمرہ کے واقعات اور ان کے حوالے سے گرما گرم تبادلہ خیال مختلف آراء کو خطرناک دلائل تبدیل کرکے صورتحال کو دھندلا دیتا ہے، حتیٰ کہ غیر حقیقی سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں مثلاً ’ʼآپ پاکستان کے ساتھ ہیں یا پاکستان کیخلاف؟‘‘
انہوں نے اختتامی الفاظ میں امید ظاہر کی کہ امید ہے دانشمندی سے کام لیا جائے گا اور درگزر کیا جائے گا، ایسا ہوا تو ہم اپنے تنازعات طے کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔