ایجنسیوں کے ذریعے فون ٹیپنگ کو روکا نہیں جا سکتا، ضابطے بن سکتے ہیں

اسلام آباد (ذرائع) خفیہ ایجنسی کے ایک سابق سربراہ کا کہنا ہے کہ خالصتاً سیکورٹی وجوہات کی بنیاد پر خفیہ طور پر فون کالز سننے (فون ٹیپنگ) کا عمل بند نہیں کیا جا سکتا لیکن انٹیلی جنس ایجنسیوں کے عمل کو ریگولیٹ کیا جا سکتا ہے تاکہ آڈیوز لیک ہونے کے مسائل کی روک تھام کی جا سکے۔ دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کی ایجنسیاں سیکورٹی وجوہات کی بنا پر فون ٹیپنگ کرتی ہیں لیکن ہمارے پاس ضابطوں کا فقدان ہے۔ ذریع نے کہا کہ ہمارے پاس ضابطے نہیں، ایسے قوانین نہیں جو ایجنسیوں سے بالاتر ہوں۔ انہوں ںے مزید کہا کہ فون ٹیپنگ کے معاملے پر تفصیل سے بات ہونا چاہئے تاکہ جاسوسی کے معاملے پر ایسے بحث و مباحثہ ہو جس میں قومی سلامتی کو تحفظ ملے لیکن سیاسی مقاصد کیلئے یا پھر کسی کو بدنام کرنے کیلئے فون ٹیپنگ کی کوئی جگہ نہیں۔ پیر کے دن تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا تھا کہ آڈیو لیکس قومی سلامتی کی سنگین خلاف ورزی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں وزیراعظم آفس اور وزیراعظم ہاؤس کی پوری سیکورٹی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بحیثیت وزیراعظم ان کی رہائش گاہ پر ان کی محفوظ (سیکیور) لائن کو بھی ٹیپ کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آڈیو لیکس کے مستند ہونے کے حوالے سے پی ٹی آئی عدالت سے رجوع کریگی اور اس کے بعد جے آئی ٹی کی تشکیل کا مطالبہ کرے گی تاکہ یہ پتہ چلایا جا سکے کہ کون سی انٹیلی جنس ایجنسی ٹیپنگ میں ملوث ہے اور کون ہے جو آڈیوز لیک کر رہا ہے اور ان میں سے زیادہ تر آڈیوز ترمیم شدہ یا پھر مصنوعی ہیں۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ یہ صورتحال تشویشناک ہے کیونکہ حساس سیکورٹی معاملات کی غیر قانونی ریکارڈنگ کی جا رہی ہے اور کی گئی ہے، نتیجتاً یہ ریکارڈنگز ہیک ہوئی ہیں، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان کی قومی سلامتی عالمی سطح کا پردہ چاک ہو چکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب عمران خان خود وزیراعظم تھے اس وقت انہوں نے نجی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایجنسیوں کی جانب سے فون ٹیپ کرنے کی حمایت کی تھی۔ پاکستان ایسے چند جمہوری ملکوں میں سے ایک ہے جہاں انٹیلی جنس ایجنسیاں کسی ضابطے کے بغیر کام کرتی ہیں۔ ان ایجنسیوں کیلئے کوئی ضابطہ نہیں، کوئی ان سے ان کی کارکردگی پر سوال نہیں کرتا۔ پاکستان کی سرکردہ انٹیلی جنس ایجنسیاں (آئی بی اور آئی ایس آئی) ملک کے قیام کے فوراً بعد ایگزیکٹو آرڈر کے تحت قائم ہوئی تھیں لیکن ان کے کام کاج کے حوالے سے کوئی ضابطہ تیار نہیں کیا گیا۔ فی الوقت، یہ ایجنسیاں ایس او پیز کے تحت کام کرتی ہیں جن کی کوئی قانونی بنیاد نہیں لہٰذا ان ایجنسیوں کے تمام تر اقدامات کسی قانونی دائرۂ کار میں نہیں آتے۔ سابق ڈی جی آئی بی، شعیب سڈل نے قانون سازی کے حوالے سے اقدامات کیے تھے۔ زرداری گیلانی حکومت کے ابتدائی دنوں میں انہوں نے آئی بی چیف کی حیثیت سے قانون سازی کے حوالے سے انہوں پہلے انٹیلی جنس چیف کی حیثیت سے رضا کارانہ طور پر پارلیمانی نگرانی کیلئے اقدامات کیے اور دیگر جمہوریتوں کے قوانین کا مشاہدہ کرنے کے بعد ایک قانون کا مسودہ تیار کیا۔ ان کے سبکدوش ہونے کے بعد، ان کا تیار کردہ مسودہ ’’غائب‘‘ ہوگیا۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*