کرم کیلئے امدادی اشیاء لے جانے والا 20 گاڑیوں پر مشتمل قافلہ روانہ

کرم میں گاؤں پر راکٹ حملہ، پاراچنار کیلئے سامان کے قافلے تاحال روانہ نہ ہوسکے، بچوں کی اموات 147 ہوگئیں

سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ کرم کیلئے امدادی اشیاء لے جانا والا 20 گاڑیوں پر مشتمل قافلہ روانہ کردیا گیا ہے، قافلے کی فضائی نگرانی ہیلی کاپٹر سے کی جارہی ہے۔

سرکاری ذرائع نے بتایا کہ سخت سکیورٹی میں امدادی اشیاء کے قافلے کو روانہ کیا گیا ہے، قافلے کی گاڑیوں میں اشیائے خورونوش سمیت دیگر ضروری اشیاء شامل ہیں۔

سرکاری ذرائع کے مطابق گزشتہ روز حکومت اور علاقہ عمائدین کے مابین مذاکرات کامیاب ہوئے تھے، جس کے بعد قافلے کو روانہ کرنے کی اجازت گزشتہ شب دی گئی۔

ذرائع کے مطابق ٹل سے بگن کے لیے 10 ٹرک سامان روانہ ہوا اور پارہ چنار کے لیے 12 گاڑیاں روانہ ہوئیں۔

ٹل پارہ چنار شاہراہ پر فرنٹیر کور اور پولیس تعینات ہے، روڈ پر سیکیورٹی فورسز کی پٹرولنگ بھی جاری ہے۔

بدھ کو صبح کے اوقات میں رپورٹ کیا گیا تھا کہ امن معاہدے کے پانچ روز گزرنے کے باوجود پارا چنار کے لیے سامان کے قافلے تاحال روانہ نہیں ہوسکے ہیں اور ٹل کینٹ کمپاؤنڈ میں 29 سامان سے لدے ٹرک موجود ہیں، جبکہ 51 ٹرک واپس پشاور جا چکے ہیں۔

ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کرم شاہراہ کو محفوظ بنانے کے اقدامات جاری کئے گئے ہیں، انتظامیہ کا کہنا تھا کہ مندروی مشران کے ساتھ ٹل میں مذاکرات جاری ہیں، پارا چنار شاہراہ پر سیکیورٹی انتظامات مکمل ہوتے ہی امدادی سامان روانہ کر دیا جائے گا۔

دوسری جانب ضلع کرم کو دیگر اضلاع سے لنک کرنے والی واحد مین سڑک آج 94 ویں روز بھی ہر قسم آمد و رفت کیلئے بند ہے۔

راستوں کی بندش کے باعث پاراچنار شہر سمیت اپر کرم کے سو سے زائد دیہات علاقے میں مخصور ہوکر رہ گئے ہیں۔

طویل راستوں کی بندش کی وجہ سے انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، اشیائے خوردونوش نہ ملنے کی صورت میں شہری فاقوں پر مجبور ہیں۔

صدر سبزی منڈی کے مطابق شہر میں مقامی سبزیاں پیاز اور ٹماٹر ختم ہوچکے ہیں، جبکہ آلو 550 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہو رہے ہیں۔

صدر ٹریڈ یونین کا کہنا ہے کہ گودام ، دکانیں اور کاروباری مراکز میں ہر چیز ختم ہوچکی ہے اور زیادہ تر مراکز بند ہیں۔

سول سوسائٹی پاراچنار کا کہنا ہے کہ ادویات اور معیاری علاج نہ ملنے کی وجہ سے اب تک 147 بچے جاں بحق ہوگئے ہیں۔ اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک پیناڈول گولی اور بروفین شربت کیلئے اسپتالوں میں لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہے۔

صدر میڈیکل یونین کا کہنا ہے کہ آؤٹ ڈور میڈیکیشن میسر نہیں ہے، میڈیکل سٹور خالی ہوچکے ہیں۔

اس کے علاوہ پیٹرول اور ڈیزل نہ ہونے کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ، اے ٹی ایمز مشینز اور موبائل نیٹ ورک بند ہیں، مواصلاتی نظام درہم برہم ہوچکا ہے اور لوگوں کو روابط میں مشکلات کا سامنا ہے۔

ضلع کرم میں دفعہ 144 کے کھلے عام خلاف ورزی جاری ہے۔ دفعہ 144 کے باوجود جلسے جلوس جاری ہیں۔

ذرائع کے مطابق کل رات گاؤں بغدی پر ایک راکٹ داغا گیا ہے، راکٹ کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

طوری بنگش قبائل کے عمائدین کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کے باوجود روڈ تاحال نہیں کھولا گیا، یہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور حکومت کو کوئی پرواہ ہی نہیں۔

عمائدین نے مطالبہ کیا کہ روڈ کو ہر قسم آمد و رفت و ٹریفک کیلئے محفوظ بنایا جائے۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*