تحریر: اختر بھوپالی
جمہوریت پسند جماعتیں جب عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اقتدار میں آتی ہیں تو عوام الناس کی فلاح وبہبود ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے ۔ جس کیلئے وہ مختلف سہولتیں مراعات اور اسکیموں کی منصو بہ بندی کرتی ہیں۔ ان کی زیادہ ترتوجہ متوسط طبقے کو سہولتیں فراہم کرنا ہوتی ہیں کیونکہ یہی وہ طبقہ ہے جو ان کو اقتدار میں لاتاہے ۔ غریب مزدور ہویا کسان یا عوام ان کے ووٹ دھونس دھاندلی’ ڈر خوف یا پھر لالچ سے حاصل کرلئے جاتے ہیں ۔امراء اور شرفاء اول تو ووٹ کاسٹ ہی نہیں کرتا اور اگر گھر سے نکلتا بھی ہے اپنے مفاد کو مد نظر رکھتا ہے ۔ بس یہی ایک متوسط طبقہ ہی ہے جو جوش اور جذبے کے ساتھ بھوکا پیاسا قطار میں لگا ووٹ ڈالنے کا منتظر ہوتاہے ۔ اس لیے اس متوسط طبقے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مزدور’ کسان اور عوام الناس کیلئے انقلابی اسکیموں کا اجراء ہوا ۔ جس کے ثمرات سے آج بھی عوام مستفیض ہورہے ہیں ۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) بھی پیپلزپارٹی کی ایجاد ہے ۔ مگر اس طرح عوام میں رقم تقسیم کرکے انہیں محتاج بنانے کی بجائے یہی رقم سے کسی انڈسٹریل ہوم کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے تو بے سہارا خواتین کام کاج کرکے ہرماہ ایک معقول رقم فخریہ انداز میں وصول کررہی ہوثیں اور ان کی عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوتی ۔ احساس پروگرام بھی اس کی بگری ہوئی شکل ہے ۔ اس کے علاوہ اور کسی جماعت نے کوئی قابل قدر کام نہیں کیا۔ یوٹیلیٹی اسٹور ایک اچھی کاوش ہے ۔ اس طرح متوسط طبقے کے افراد معیاری اشیاء خوردونوش یا کفایت حاصل کرتے تھے ۔ جب یوٹیلیٹی اسٹور کا قیام عمل میں آیا۔ اس وقت ملک میں بڑے بڑے شاپنگ مال نہیں ہوتے تھے اور اگر تھے بھی تو ان تک عام آدمی کی رسائی ممکن نہ تھی ۔ مگر آج صورتحال ذرا مختلف ہے جگہ جگہ شاپنگ مال بن گئے ہیں جو با رعایت اشیاء فراہم کررہے جن میں دیا جانے والا ڈسکائونٹ یوٹیلیٹی اسٹور سے زیادہے ‘ جبکہ ٹیوٹیلیٹی اسٹور ہر رعایت بہت کم ہے ماسوائے اس آئٹم کے جس پر حکومت سبسڈی رہتی ہے ۔ مگر یہاں پر یوٹیلیٹی اسٹور کے عملے کا اسرار ہوتاہے کہ سبسڈی آئٹم کے ساتھ وہ جو اشیاء دے رہا ہے وہ بھی خریدنا پڑے گی ۔ گزشتہ دنوں حکومت نے گھی پر سبسڈری کا اعلان کیا تو ایک فرد کو دوکلو گھی کے ساتھ کوئی اشیاء خریدنی پڑتی تھیں اور شناختی کارڈ کے اندراج کے بعد کمپیوٹر سے سلپ بھی فراہم کی جاتی تھی ۔ پھر عملے نے ایک کلو گھی دینا شروع کردیا اور سلپ بھی غائب تو شبہ ہوتا ہے کہ عوام کو تو ایک تھیلی دی جارہی ہے اور کمپیوٹرمیں اندراج رو کا ہورہاہے یعنی بقیہ مال چھپر میں …یہ ابھی چند دنوں پہلے کی بات ہے کہ چینی بازار میں مہنگی ہوتی تو یوٹیلیٹی اسٹور پر بھی 20 رو پے اضافے کے ساتھ اس کی قیمت 90 روپے مقرر کردی۔ ایک دن ہمارا یوٹیلیٹی اسٹور جانے کا اتفاق ہوا تو دروازہ پر ہم نے گارڈ سے پوچھا چینی ہے اور کیا کلو ہے اس نے بڑی شائستگی سے کہا کہ ہے تو کلو تو پتہ نہیں 3 کلو کا پیکٹ 290 روپے کا ہے مگر اس کے لئے شناختی کارڈ لانا ہوگا اور کوئی چیز بھی خریدنی ہوگی چنانچہ ہم دوسرے دن شناختی کارڈ ل کر اسٹور پہنچے تو دروازہ پر ایک پرچہ چسپاں دیکھا جس کا مضمون کچھ یو ں تھا ”اطلاع برائے عوام الناس تمام معزز کسٹمرز کو مطلع کیا جاتاہے کہ یوٹیلیٹی اسٹور کارپوریشن ڈیجیٹل ہوچکاہے پورے پاکستان میں سارے اسٹور کا ریٹ برابر ہوتا ہے مہنگائی کے اس طوفان میں روزانہ کی بنیاد پر ریٹ تبدیل ہورہے ہیں آئٹم پر لکھے ریٹ کے مطابق ہم سیل نہیں کرتے ہمارے ریٹ آن لائن ہوتے ہیں برائے کرم اسٹاف سے بحث کرکے وقت ضائع مت کریں کیش کمپیوٹر بل کے مطابق لیا جائے گا ۔یہ تحریر پڑھتے ہی ہم سمجھ گئے کہ عوام کے ساتھ کوئی گیم ہونے والا ہے خیراندر داخل ہوئے شناختی کارڈ کمپیوٹر والے کے حوالے کیا 3 کلو چینی کا پیکٹ کائونٹر پر رکھا اور ایک شان مصالحے کا پیکٹ جس پر خوردہ قیمت 90 روپے لکھی ہوئی تھی رکھ دیا موصوف فرمانے لگے یہ 98 روپے کا ہے ۔ ہم نے کہا بھائی اس پر 90 روپے لکھا ہے تو اس نے پر چہ کی طرف اشارہ کیااور کہا قیمت بڑ ھ گئی ہے یہ آپ کمپیوٹر پر دیکھ لیں اس کے ساتھ2 روپے کی ماچس رکھ کر 390 روپے کا بل بنادیا ۔ مگر بل نہیں دیا کہ سلپ نہیں ہے اب یہ اللہ جانے سلپ نہیں ہیں یا آرڈر نہیں ہے واپس آتے ہوئے ہم نے محلے کے ایک دکاندار سے پوچھا بھائی یہ شان مصالحے کا پیکٹ کتنے کا ہے اس نے ڈبہ نکالا پھر الٹ پلٹ کر بولا جی 90 روپے کا ہے یوٹیلیٹی اسٹوروالا کہتا ہے قیمت بڑھ گئی تو آپ کے پاس جو اسٹاک ہے وہ تو پرانی قیمت کا ہے ؟ مزید گہرائی میں جانے کیلئے دوسرے دن ہم پھر یوٹیلیٹی اسٹور پہنچ گئے اور اہلیہ کے شناختی کارڈ کے ساتھ 3 کلو چینی کا پیکٹ رکھا اور سامنے کے ریک سے ایک ڈیٹول صابن بھی رکھ دیا۔ جس کے اس نے 120 روپے وصول کئے گھر آکر ہم نے چشمہ لگا دیکھا تو صابن پر لکھا تھا ۔ MRP-76.32 +سیل ٹیکس= 90 روپے یعنی پورے 30 روپے کا فرق ؟ یہاں ہمیں یاد آگیا اسی ماہ ہم نے ڈیٹول صابن کا 3 صابن والا پیکٹ جس پر قیمت 250 روپے درج تھی مارکیٹ کے دکاندار نے رعایت کے ساتھ 240 روپے میں دیاتھا اس طرح ایک صابن 80 روپے کا ملا ۔ ہم کو تسلی نہ ہوئی اور اگلے دن ہم پھر یوٹیلیٹی اسٹور پہنچ گئے اور ڈیٹول صابن کا 3 والا پیکٹ اٹھا کر کمپیوٹر والے کے حوالے کیا کہ بھائی ذرابتانا آپ کے کمپیوٹر میں اس کی قیمت کیاہے اس پر تو 250 روپے لکھا ہے ۔ اس کے صابن پر بنے لوگو پر لائٹ لگائی اور کہا جی یہ دیکھ لیں 360 روپے آرہاہے ۔ دراصل بات یہ ہے کہ قیمتیں بڑھ گئی ہیں اب ہم سے ضبط نہ ہوا اور ہم وہاں سے سیدھا مارکیٹ پہنچے اور ایک دکاندار سے 3 صابن کے پیکٹ کی قیمت پوچھی تو علم ہوا کہ قیمت واقعی بڑھ گئی ہے مگر اتنی نہیں بولا لکھا تو 310 روپے ہے آپ 300 روپے دے دیں۔ اب ہم بڑے دعوے سے کہہ رہے ہیں کہ اس وقت پورے پاکستان میں ڈیٹول صابن کے 3 کے پیکٹ کی قیمت 360 روپے نہیں ہوگی یہ عوام کو آن لائن کے بہانے لوٹنے کا نیا ڈیجیٹل طریقہ ہے یہ تو صرف ایک آئٹم کی بات ہے یہاں موجود کوئی آئٹم مقرر ہ بھی ریٹ پر نہیں مل رہے سب اشیاء زائد قیمت پر فروخت کی جارہی ہے اور سلپ بھی نہیں دی جارہی یہاں ہمیں یوٹیلیٹی اسٹور کے ایک ذمہ دار نے انوکھی بات بتائی بولا ہم جو شناختی کارڈ کا نمبر کمپیوٹر میں ڈالتے ہیں نادرا (NADRA) اس کی تصدیق کرتا ۔ جس کے وہ پیسے چارج کرتا ہے ۔ اب اندازہ لگا پورے ملک سے روزانہ لاکھوں شناختی کارڈ کا ا ندراج ہورہاہے تو نادرا کو روزانہ لاکھوں کی کمائی ہورہی ہے اور ظاہر ہے یوٹیلیٹی والے یہ رقم اپنے پلے سے تو نہیں دیں گے عوام سے ہی وصو ل کریں گے یہ تو آپس کی بات ہے مگر نقصان تو عوام کا ہورہا ہے اور عوام کو آن لائن ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے بہانے لوٹا جارہاہے