اسلام آباد: سینیٹر فیصل واؤڈا نے ’پراکسی‘ کے ریمارکس پر سینیٹ میں جسٹس اطہر من اللہ کے خلاف تحریک استحقاق جمع کرادی اور کہا ہے کہ میں اپنی پریس کانفرنس کے ہر لفظ پر قائم ہوں، ججز کے مس کنڈکٹ پر بات کرنا میرا حق ہے اور اگر یہ جرم ہے تو مجھے پھانسی دے دیں۔
سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے فیصل واؤڈا نے کہا کہ میں ایک پیج پر پارلیمان اور پوری قوم کو لے کر آگیا ہوں اور آج ہم سب آئین و قانون کی بالادستی پر متحد ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک پریس کانفرنس کی، جس کے ہر لفظ پر آج بھی قائم ہوں۔
انہوں نے کہا کہ جن پر توہین عدالت لگنی چاہیے ان پر نہیں لگائی گئی، مجھے عدلیہ سے پہلے بھی انصاف کی توقع نہیں تھی، اب معلوم نہیں توہین عدالت میں کیا ہوگا۔ فیصل واؤڈا نے کہا کہ مس کنڈکٹ پر بات کرنے کا مجھے حق ہے۔ پاکستان میں نشاندہی کرنا اگر جرم ہے تو مجھے پھانسی دے دیں کیونکہ میں کرتا رہوں گا۔
فیصل واؤڈا نے کہا کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ایک آرڈر کر کے کرکٹ میچ کے تیس وی وی آئی پاسز مانگے، سات فروری 2023کو یہ خط ہائیکورٹ کی جانب سے لکھا گیا، اس کے بعد ہائیکورٹ کی جانب سے لکھا گیا کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جج صاحب، علی باقر نجفی نے ہائیکورٹ کے لیٹر پر اپنے امریکا جانے والے بیٹے کو پروٹوکول دینے کا لکھا جس پر وزارت خارجہ نے واضح کیا کہ پروٹوکول نہیں مل سکتا، اب پارلیمان بتائے ان شواہد کے بعد عدالت نے کیوں ایکشن نہیں لیا۔
سینیٹر نے کہا کہ ڈسٹرکٹ سیشن ججز چیف جسٹس کو لکھ رہے ہیں کہ محسن اختر کیانی اثر انداز ہوتے ہیں، ماتحت ججز بتا رہے ہیں کہ ہماری ٹرانسفر پوسٹنگز کردی جاتی ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ نور مقدم کیس کا ٹرائل تیزی سے نہیں ہورہا۔ جج صاحب کی بیگم ایک کام کرنے والی بچی پر تشدد کرتی ہیں اور کچھ نہیں ہوتا، ایک لینڈ کروزر والا ایک پولیس کانسٹیبل کو مار دیتا ہے تو اسے عدم ثبوت کا کہہ کر رہا کردیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی، پھر کہا گیا کہ پھانسی غلط تھی، غلط سزا دینے والوں کو تو علامتی سزا دیتے، اس جج کے پیچھے کھڑے آمر کو بھی تو علامتی سزا دے دیتے۔ ان ججز نے نوازشریف کو سسلین مافیا کہہ کر سب سے بڑے عہدے سے ہٹایا اور عوامی مینڈیٹ کی بے توقیری کی
Loading...