عدالتوں میں 24 لاکھ مقدمات التواء کا شکار ہیں, جسٹس منصور علی شاہ

ہمیں زیر التواء مقدمات کا بوجھ کم کرنے کی ضرورت ہے, سینئر پیونی جج سپریم کورٹ

کراچی (رپورٹ: کامران شیخ)

سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ عدالتوں میں 24 لاکھ مقدمات التواء کا شکار ہیں۔ ہمیں زیر التواء مقدمات کا بوجھ کم کرنے کی ضرورت ہے, انھوں نے بزنس سیکٹر سے وابستہ افراد کو کہا کہ عدالتوں سے رجوع کرنے سے قبل ثالثی کی کوشش کریں۔ تفصیلات کے مطابق کراچی میں آئی بی اے سٹی کیمپس میں ثالثی سے متعلق سیمینار کا انعقاد کیا گیا, سیمینارمیں سپریم کورٹ کےسینئر پیونی جج جسٹس منصورعلی شاہ اور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس محمد شفیع صدیقی نے شرکت کی, سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ہمیں زیر التواء کا مقدمات کا بوجھ کم کرنے کی ضرورت ہے، 24 لاکھ مقدمات التواء کا شکار ہیں، آپ خود بھی اس ثالثی پلیٹ فارم سے رابطہ کریں، عدالتوں سے رجوع کرنے سے قبل پہلےثالثی کی کوشش کریں۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس شفیع صدیقی کاکہنا تھاکہ یہاں قابل وکلاء ججز اورکمرشل سیکٹرکے لوگ موجود ہیں جو یہ کام کرسکتےہیں، ثالثی کا کرداربہت اہم ہے, سیمینارمیں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب سمیت دیگرجج صاحبان بھی شریک ہوئے ۔ سیمینار میں اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان ،چیئرمین ایس ای سی پی عاکف سعید اور دیگر نے بھی شرکت کی, سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ مجھے خوشی ہےکہ جوڈیشل جسٹس سسٹم میں بہتری کیلئے کام کا آغاز ہوا، یہاں بزنس اسکول کے احاطے میں جوڈیشری کا اشتراک اچھا اقدام ہے، 24 ہزار مقدمات ہائی کورٹ جبکہ 38 ہزارمقدمات سیشن عدالتوں میں داخل ہوتے ہیں، 8ہزارججوں کی موجودگی میں ایسےمقدمات کا التواء ختم نہیں کیا جاسکتاہے ، میں کہوں گا بزنس سیکٹر کے لوگ مصالحتی فورم سے رجوع کریں، آپ خود بھی اس ثالثی پلیٹ فارم سےرابطہ کریں، عدالتوں سےرجوع کرنے سے قبل ثالثی کی کوشش کریں، اس میں کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، سنگاپور میں یہ عام کلچر ہےکہ کوآپریٹ سیکٹر کےمسائل ثالثی فورم میں گھر بیٹھےحل ہوتے ہیں، پاکستان میں بھی اب اسےاپنانا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ کسٹمرسروس سینٹر اور کسٹمر ثالثی فورم بھی موجود ہوتے ہیں،انھوں نے کہا کہ بزنس سیکٹرکو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنےمسائل اورشکایات کاازالہ جلد کرسکتے ہیں، ایمیزون میں بھی ثالثی پلیٹ فارم موجودہے، آپ ٹیکنالوجی کا استعمال کریں خود کو اس کا عادی بنائیں، میری درخواست ہےکہ صحت کی کمپنیاں اپنا سسٹم متعارف کرائیں اورثالثی کا کردار اداکریں، کلائمٹ چینج، سپلائی چین اوردیگرمسائل کاروباری مسائل کی وجہ بن رہا ہے، اے ڈی آرکو استعمال کرکےبزنس کونقصان سےبچایا جا سکتا ہے، گلوبل پارٹنرزاورایگریمنٹ کےذریعےمسائل کوحل کیاجاسکتاہے ، لیگل ایجوکیشن میں ہم اسےشامل کرنےکی بھی کوشش کریں گےتاکہ اس حوالےسےبھی آگاہی مل سکے، ایکسپرٹس، کوآپریٹ سیکٹر کے لوگ اسمیں اپنا کردارادا کرسکتے ہیں، چائنا کےساتھ جو ہمارے معاہدے ہوئے ہیں، ہم وہ معاملات کوثالثی کے ذریعے حل کرسکتےہیں، چائنیزکسی بھی سرمایہ کاری معاہدوں میں تاخیرپسندنہیں کرتا، نئی زبان بزنس کی اب ثالثی فورم ہے، چائنہ پاکستان کا دوست ہےاوروہ یہاں باہمی کارو باری مواقع دینا چاہتا ہے، ہمیں آگےبڑھنا ہوگا جس سےمعیشیت اورملکی بہتری کیلئےکام ہوسکتاہے، ہمیں اس میں کوئی تاخیرنہیں کرنی چاہیئے۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس شفیع صدیقی کاکہنا تھاکہ یہاں قابل وکلاء ججز اورکمرشل سیکٹرکےلوگ موجودہیں جو یہ کام کرسکتےہیں، ثالثی کا کرداربہت اہم ہےلیکن یہ سسٹم کوبہترکرنےکا ایک جزہے، ہم سمجھتےہیں ثالثی کےذریعےمعاملات کو ٹھیک کرسکتےہیں لیکن یہاں اعتماد کا فقدان بھی دکھائی دیتا ہے، اس لئےابھی فوری طورپرلوگوں نے اس پلیٹ فارم سےرجوع نہیں کیا، سائلین کا ایک سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ آئی بی اے کا کوئی لاء ڈپارٹمنٹ نہیں ہے، پھریہ کیسےلوگوں کے معاملات حل کرسکتا ہے، اس حوالےسےآگاہی بہت ضروری ہے، آپ ایک طرفہ بات سن کرمسئلے کوحل نہیں کرسکتے، کمرشل کوآپریٹ سیکٹرکی شکایات کیلئےباہمی اعتماد بھی ضروری ہوتا ہے۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن کا کہنا تھاکہ میراسوال یہ ہےکہ کیوں یہ سسٹم پاکستان کیلئےضروری ہے، ہم کاروباری شخصیات کو یہ اعتماد دلوانا چاہتےہیں کہ وہ یہاں بغیرکسی مسائل کےکام کرسکتےہیں، سرمایہ کاری میں اس سےنہ صرف اضافہ ہوگا بلکہ اعتماد میں بھی بحالی آئیگی، بزنس اسکول یہاں بیٹھ کراس سسٹم کےقیام کیلئےکام کررہا ہے۔لندن،آسٹریلیااور دیگرممالک کے درمیان تنازعات حل طلب ہیں، اس میکنزم کواستعمال کرکےجلد اور فوری انصاف کی فراہمی کویقینی بنایا گیا ہے، ہرمعاملہ کوعدالتوں میں لیجانا بالکل درست نہیں، یہ کسی صورت بھی عدالتی معاملات میں مداخلت نہیں ہے، پاکستان اسے استعمال کرکےمصالحت سےمعاملات ٹھیک کرسکتا ہے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارٹیکس سسٹم میں ترمیم کردی ہے، اسٹیٹ سےمتعلق معاملات حل کرنا اسٹیٹ کہ ذمہ داری ہونی چاہیئے، کوآپریٹ سائیڈ پراب اسکا استعمال ہونا ضروری ہے۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ عدلیہ پرمقدمات کا بوجھ ختم کرنےکیلئےیہ احسن اقدام ہے، میں جسٹس منصور علی شاہ کو مبارک بادپیش کرتا ہوں، ترکی نےاس سسٹم سے12لاکھ مقدمات کونمٹایا، پاکستان میں سالانہ 20لاکھ مقدمات کا بوجھ ہےجسےختم کیا جاسکتا ہے، میں سمجھتا ہوں آئی بی اےاور جسٹس کمیشن نےاس معاملہ پرسنجیدگی سےکام کیا، صوبہ اور وفاقی سطح پراس سسٹم کے ذریعےملکی معاملات کوٹھیک کیا جاسکتا ہے، وفاقی حکومت اس معاملہ پرسنجیدہ ہےجوبھی فنڈ اس پرخرچ ہوگا وہ اسکی تیاری کررہے ہیں۔ایگزیکٹیو ڈائریکٹرآئی بی اے اکبرزیدی نے سیمینار سےخطاب کرتے ہوئے کہاکہ آئی بی اےکمرشل لاء ڈپارٹمنٹ اورسنگاپورانٹرنیشنل سینٹر ملکراس سینٹرکےقیام کیلئےکام کررہےہیں، نوجوانوں کواس حوالےسےآگاہی اورتعلیم دینےکی ضرورت ہے، کوآپریٹ سیکٹر،بزنس سیکٹر سمیت دیگرمعاملات کومل بیٹھ کرحل کرنےکی ضرورت ہے، اسی حوالےسےاس سینٹرکےقیام کی ضرورت پر زوردیا گیا، وکلاء اور جوڈیشری کی جانب سے اس معاملےپرتعاون کرنے پر انکے شگر گزار ہیں۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*