’سوری بولو، نہیں پہلے تم سوری بولو‘

کبھی آپ کا شریک حیات یا کوئی یار سجن ناراض ہو جائے اور وجہ بھی سمجھ نہ آ رہی ہو تو آپ سوری کہہ کر منانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ کا ناراض ساتھی فوری طور پر ماننے کے موڈ میں نہ ہو تو آپ سے پوچھ لیتا ہے کہ کس بات کی سوری کر رہے ہو۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنی غلطی کا احساس ہے بھی یا نہیں، کیا صرف جان چھڑانے کے لیے تو سوری نہیں بول رہے، کیا دل سے معافی مانگ رہے ہو یا اندر سے ابھی تک یہی سمجھتے ہو کہ میں نے تو کچھ کیا ہی نہیں۔

معافی کے مطالبوں کے اِس موسم میں دل چاہتا ہے کہ پہلے تو آئی ایس پی آر کے سابق سربراہان سے سوری بولا جائے۔

جنرل آصف غفور سے سوری بولا جائے جنھوں نے صحافیوں سے کہا تھا کہ صرف چھ مہینے تک مثبت خبریں دیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم لیکن باز نہ آئے اور کچھ بھی ٹھیک نہ ہوا۔

جنرل عاصم باجوہ سے سوری بولا جائے جنھوں نے پاکستان میں فلم، ڈرامے اور موسیقی کی زبردستی سرپرستی کی۔ آرمی پبلک سکول کے غموں والے موسم میں ترانے بنوا کر اور سُنوا کر ہمارے حوصلے بڑھائے۔

ویسے تو ہر نیا آنے والا جنرل جانے والے کے مقابلے میں زیادہ پروفیشنل اور محب وطن ہوتا ہے لیکن آئی ایس پی آر کے موجودہ سربراہ جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس سُن کر لگا کہ اُن کی شخصیت میں ایک جنرل کی متانت اور ایک موٹیویشنل سپیکر کے حُسن بیان کا حسین امتزاج ہے۔ دل اُن کا درد مند ہے اور لہجہ دبنگ۔

سانحہ نو مئی کو یاد کر کے کہتے ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے، پھر اشتہاری ٹولے کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ معافی مانگو اور دل سے مانگو تو شاید مل بھی جائے۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*