دبئی کی پراپرٹی پاکستانی اور جنوبی ایشیائی شخصیات کے لیے سرمایہ کاری کی جنت کیوں ہے؟

پاکستان سمیت دنیا بھر میں گذشتہ دن سے عالمی صحافتی تنظیم ’آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ‘ کی جانب سے ’دبئی ان لاکڈ‘ کے عنوان سے ہونے والی تحقیقات کا چرچہ ہو رہا ہے جس میں متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی کی پراپرٹی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والے کئی نام اور اُن سے جڑے حقائق سامنے آئے ہیں۔

دنیا کے 70 سے زیادہ صحافتی اداروں اور صحافیوں کے تعاون سے تشکیل پانے والی ’دبئی ان لاکڈ‘ کے نام سے جاری اس تحقیقاتی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ’ایسے افراد کے نام سامنے لائے گئے ہیں جو دبئی میں ہزاروں کی تعداد میں پراپرٹی اور ریئل سٹیٹ کے مالک ہیں جن میں مبینہ مجرمان اور سیاست دان شامل ہیں۔‘

تاہم واضح رہے کہ یہ تحقیقات اس بات کا اظہار ہرگز نہیں کرتیں کہ دبئی میں خریدی گئی پراپرٹی غیرقانونی ذرائع یا غیرقانونی طریقے سے خریدی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سینیئر سیاسی و عسکری حکام کے نام ’مفاد عامہ‘ میں سامنے لائے گئے ہیں۔

تاہم اس رپورٹ کے ذریعے جہاں کئی نام منظرِ عام پر لائے گئے ہیں، وہیں کئی سوالات نے بھی جنم لیا ہے جن میں سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ دبئی پاکستانیوں سمیت غیر ملکی افراد کے لیے پراپرٹی میں سرمایہ کاری کی جنت کیسے بنا؟ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ دبئی جیسے مقام پر پراپرٹی خریدنا کتنا آسان ہے اور اس ضمن میں رائج قوانین کیا کہتے ہیں؟

ان سوالات کے جواب جاننے سے قبل یہ دیکھتے ہیں کہ ’دبئی ان لاکڈ‘ ہے کیا؟

’دبئی ان لاکڈ‘ تحقیقات کیا ہیں؟
دبئی ان لاکڈ نامی بین الاقوامی تحقیقات میں متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں ریئل سٹیٹ شعبے کے غیر ملکی مالکان کے بارے میں جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ چھ ماہ تک جاری رہنے والی ان تحقیقات کی قیادت آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ (او سی سی آر پی) نے کی جس میں دنیا بھر سے میڈیا کے 70 سے زیادہ اداروں کے صحافیوں نے حصہ لیا۔

او سی سی آر پی کے مطابق ان تحقیقات میں معلوم ہوا کہ ’مشرق وسطیٰ کے مالیاتی مرکز میں کون کس پراپرٹی کا اصل مالک ہے اور کیسے اس شہر نے دنیا بھر کے ان افراد کے لیے بھی اپنے دروازے کھولے جن پر مختلف الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔‘

او سی سی آر پی کی ویب سائٹ پر جاری معلومات کے مطابق ’یہ معلومات اس لیک ہونے والے ڈیٹا کی مدد سے مرتب کی گئی ہیں جو دبئی لینڈ ڈیپارٹمنٹ اور متعدد دیگر سرکاری کمپنیوں سے ملا اور یہ 2020 سے 2022 کی مدت کا ریکارڈ تھا۔‘

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ ڈیٹا سب سے پہلے واشنگٹن ڈی سی میں موجود سینٹر فار ایڈوانسڈ ڈیفینس سٹڈیز نامی غیر سرکاری تنظیم نے حاصل کیا جو بعد میں او سی سی آر پی کو فراہم کیا گیا

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*