ایک دن بینش عاطف کے دونوں بیٹے اپنے معمول کی طرح کرکٹ کھیلنے عمارت سے نیچے گلی میں گئے۔ مگر اس بار 15 منٹ کے بعد ہی ان کا بڑا بیٹا دوڑتا ہوا آیا اور بولا ’امی! ابیہان گٹر میں گر گیا ہے۔‘
کراچی کے علاقے گلشن اقبال 13 ڈی کی رہائشی بینش کے بڑے بیٹے نے بتایا کہ ابیہان ہاتھ ہلا کر مدد کے لیے پکار رہا تھا لیکن کسی نے ان کی مدد نہیں کی۔
2023 میں ان کے چھ سالہ بیٹے ابیہان ایک کُھلے گٹر میں گر گئے تھے۔ واقعے کو ایک سال گزر چکا ہے مگر اس کے باوجود بینش عاطف اور ان کے شوہر عاطف الدین کسی معجزے کے منتظر ہیں۔
بینش کہتی ہیں کہ ’ابھی تک لاش نہیں ملی۔ دل میں سکون ہی نہیں۔ بس بے چینی ہے، جیسے وہ واپس آئے گا۔‘
کراچی میں ہر سال متعدد افراد گٹروں میں گِر کر ہلاک یا زخمی ہو جاتے ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق رواں سال کے چار ماہ کے دوران کم از کم 15 افراد گٹروں اور نالوں میں گِر کر ہلاک ہوئے جبکہ گذشتہ سال یہ تعداد 60 سے زائد تھی۔ اکثر اموات کہ وجہ گٹروں پر ڈھکن نہ ہونا تھی۔
اس دن کو یاد کرتے ہوئے ابیہان کے والد عاطف الدین بتاتے ہیں کہ کئی گھنٹوں کے بعد ریسکیو والے آئے لیکن ان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ گٹر لائن کہاں جاتی ہے۔
انھوں نے چند گھنٹوں کے بعد ریسکیو آپریشن بند کر دیا۔ جب انھوں نے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر علاقے میں احتجاج کیا تو آپریشن دوبارہ شروع ہوا اور سڑک کھودی گئی۔ لیکن ابیہان کا پتہ نہیں چل سکا۔
عاطف اور بینش آج بھی اس تکلیف اور غم میں مبتلا ہیں۔ ان کا سوال ہے کہ ان کا بچہ گٹر میں گرنے سے ’لاپتہ ہوا یا قتل؟‘
’میرے بچے کو ڈھونڈ کر دیں یا تو بتا دیں کس قبرستان میں جا کر ڈھونڈوں۔‘ ان کا خیال ہے کہ اگر یہ قتل ہے تو اس کے ذمہ دار وہ ادارے ہیں جن کی غفلت کی وجہ سے گٹر کھلے رہتے ہیں۔
Loading...